Tuesday, September 5, 2017

پیشہ وارانہ اقدار وقت کی اہم ضرورت

پیشہ وارانہ اقدار وقت کی اہم ضرورت
ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی 
صدر شعبہ اردو گری راج کالج نظام آباد


انسان سماجی حیوان ہے۔قدرت نے اسے کائنات میں موجود اٹھارہ ہزار مخلوقات میں اشرف المخلوقات کا درجہ دیا ہے۔ یہ درجہ علم و عقل اور قوت گویائی کے سبب ہے۔ انسان نے ہر زمانے میں بہتر زندگی گزارنے کی کوشش کی ہے اور اچھی قدروں پر عمل کرنے کا خواہاں رہا ہے۔ انسان اپنی عقل اور اپنے مشاہدے سے سماج میں کچھ باتوں کو اچھا سمجھتا ہے اور کچھ باتوں کو برا۔ وہ برائی ترک کرکے اچھائی کو اپنانا چاہتا ہے اور امید کرتا ہے کہ وہ جس سماج میں رہتا ہے وہاں دوسرے لوگ بھی اس کے ساتھ اور ایک دوسرے سے اچھا برتاؤ پیش کریں۔ اچھا برتاؤ اچھی قدریں کہلاتا ہے۔ قدر کیا ہے۔ انسان جس بات کو اچھا سمجھے وہ اچھی قدر ہے۔ مثال کے طور پر انسان صفائی کو پسند کرتا ہے گندگی کو نا پسند کرتا ہے اس طرح صفائی اچھی قدر ہے اور گندگی بری قدر۔ اسی طرح انسان ایمان داری ‘ ہمدردی‘ سچائی‘ وفاداری‘ ایثار اور قربانی وغیرہ کو بھی اچھی قدریں تصور کرتا ہے۔ کسی بات کو ہم کن بنیادوں پر اچھا کہہ سکتے ہیں اس کا جواب یہ ہے کہ کسی سنجیدہ سماج میں مذہب‘ سماج ‘ملک کا قانون اور اپنے دوست احباب اور عزیز و اقارب جن باتوں کو اچھا کہہ دیں وہ اچھی قدریں ہیں۔ مذہب لوگوں کو زندہ رہنے کا حق دیتا ہے۔ ملک کا قانون بھی زندگی کے حق کی طمانیت دیتا ہے اسی طرح سنجیدہ سماج بھی کسی کی جان لینے کو برا سمجھتا ہے۔ اس طرح زندہ رہنا اور زندگی کی راہیں ہموار کرنا اچھی قدریں ہیں یہی وجہہ ہے کہ لوگ مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کرتے ہیں اور کسی کے وقت پر کام آکر طمانیت محسوس کرتے ہیں۔ انسان اپنے گھر سے جب باہر کی زندگی میں قدم رکھتا ہے اور کچھ پیشے اختیار کرتا ہے تو اس پیشے سے وابستگی کے دوران بھی اس سے امید کی جاتی ہے کہ وہ اچھی قدریں پیش کرے۔ ہماری زندگی میں بے شمار پیشے ہیں اور لوگ چاہتے ہیں کہ ان پیشوں سے وابستہ افراد اچھی قدروں کی پاسداری کریں۔ آئیے دیکھیں کہ مختلف پیشوں میں اقدار کی کیا صورتحال ہے۔
پیشہ تدریس میں اخلاقیات: تدریس ایک معز ز پیشہ ہے۔ اساتذہ کے ہاتھ میں نوجوانوں کی تربیت کی بھاری ذمہ داری ہوتی ہے۔ بچے اساتذہ کو اپنے رول ماڈل کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اگر استاد غلطی کریں تو ان کے شاگرد بھی وہی غلطیاں کریں گے اور قوم کا مستقبل تاریک ہوجائے گا۔اسی لئے اساتذہ کو پیشہ تدریس سے وابستگی کے دوران اعلٰی اخلاق کا نمونہ پیش کرنا چاہئے اور بچوں کے لئے وہ ایک مثالی استاد بننا چاہئے۔ ملک کے سابق صدر اور دانشور اے پی جے عبدالکلام کا کہنا ہے کہ’’ اگر ملک کو رشوت سے پاک کرنا ہے اور خوبصورت ذہنوں والا ملک بنانا ہے تو میں شدت سے محسوس کرتا ہوں کہ یہ کام تین سماجی گروہ کر سکتے ہیں۔ لڑکے کے والد والدہ اور استاد‘‘ ۔ سماج کی تعمیر میں اساتذہ اہم رول ادا کرتے ہیں۔ یہ نو نہالوں اور نوجوانوں کو تعلیم و تربیت دیتے ہیں جس کی بنا بچے اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے لائق بنتے ہیں۔اساتذہ اپنے طلبا میں تحقیق اور تخلیق کا جذبہ پروان چڑھاتے ہیں۔ ان سب سے زیادہ اساتذہ اپنے طلبا کی شخصیت سازی اور کردار سازی کرتے ہیں۔ ایک طالب علم پر اس کے استاد کے اثر کا اندازہ کرنا مشکل کام ہے۔ عصر حاضر کے تیزی سے بدلتے منظر نامے میں اساتذہ کا کردار بھی اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ دنیا میں تجارتی ذہن بڑھ گیا ہے۔ کوئی بھی کام کے پیچھے مالی منفعت دیکھی جارہی ہے۔تعلیم بھی تجارت ہوگئی ہے اور اسے کسی بازاری شے کی طرح خریدا اور بیچا جارہا ہے۔اسکولاور کالجس محض کوچنگ کے ادارے بن گئے ہیں۔ اور طالب علموں کو مخصوص مضامین میں تفصیلی کوچنگ دی جارہی ہے تاکہ آگے چل کر انہیں اچھے اداروں میں داخلہ مل سکے۔ تعلیم کا مقصد ایک بچے کی ہمہ جہت ترقی ہے۔ لیکن تعلیمی اداروں میں ان کی ہمہ جہت ترقی پر توجہ نہیں دی جارہی ہے۔ کھیل کود اور اخلاقیات پر توجہ نہیں دی جارہی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ تعلیمی ادارے اپنا احتساب کریں اور نوجوانوں میں بگڑتے اخلاق پر قابو پانے کے لئے ہنگامی اقدامات کریں۔اس کے لئے سب سے پہلے اساتذہ کو اپنے مضمون میں قابلیت کے علاوہ اخلاق کے اعلیٰ نمونہ بننا پڑے گا۔ اساتذہ کو حسب ذیل اخلاقی اقدار کا اظہار کرنا پڑے گا۔
۱) ایک استاد زندگی بھر کا طالب علم ہوتا ہے۔ اسے کبھی یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ وہ سب کچھ جانتا ہے۔ اور نہ ہی وہ یہ سوچے کہ وہ اس قدر تجربہ کار ہے کہ بغیر تیار کرے وہ کلاس لے لے گا۔ ایک استادہ کو صرف نوٹس لکھانے کے بجائے اپنے سبق کو بہتر اور دلچسپ بنانے کے لئے نئے نئے طریقے سوچناپڑے گا اور انہیں کمرہ جماعت میں پیش کرنا پڑے گا۔
۲) ایک استادکو اپنے طالب علم کی ضروریات اور جذبات کے احساس رکھناہوگا۔ ہر طالب علم منفرد ہوتا ہے کسی میں خوبیاں ہوتی ہیں تو کسی میں خامیاں۔ ایک اچھا استاد اپنے ہر طالب علم سے بہتر مظاہر حاصل کرلیتا ہے۔
۳) ایک استاد کمرہ جماعت میں کبھی کسی طالب علم کو نالائق‘کام چور وغیرہ القاب سے پکارتے ہوئے اس کی توہین نہ کرے۔ اس سے طالب علم کے دل و دماغ پرسنگین اثرات پڑ سکتے ہیں۔ اس سے طالب علم کے حوصلے پست ہوسکتے ہیں اوروہ اداس اور غمگین ہوکر خودکشی جیسے انتہائی اقدامات بھی کرسکتا ہے۔ ایک استاد کمرہ جماعت میں طلبا کو ایسا انداز سے نہ پکارے جس سے ان کے رنگ ‘قد یا کسی اور جسمانی کمی کا احسا س ہو۔ اس سے طلبا کے ذہنوں پر برے اثرات پڑ سکتے ہیں۔
۴) ایک استاد کی ذمہ داری ہے کہ وہ طلبا سے مثبت سوچ کے ساتھ کام لیں۔ سزا بھی دیں تو ایسی کہ اس سے ان کی تعلیمی بہتری ہو۔ اگر طالب علم مسلسل غلط کام کر رہا ہے تو اس کے والدین کو طلب کیا جائے اور ان سے اس کے متعلق گفتگو کی جائے۔مارپیٹ کی سزا سے بالکلیہ بچا جائے کیوں کے یہ غیر اخلاقی ہے اور قانون کے خلاف بھی ہے۔ مارپیٹ کے ایسے واقعات سامنے آئے جس سے بچوں کی بینائی متاثر ہوئی ہو اور خون بھی نکلا ہو۔
۵) ایک استاد کو اپنے طلبا کے لئے مثالی ہونا چاہئے۔ اور ایسا ہو کہ طلباء اس کی تقلید کریں۔ مثال کے طور پر ایک استاد اپنے طلبا سے کہتا ہے کہ کمرہ جماعت میں وہ فون نہ لائیں یا بند رکھیں جب کہ خود اس کا فون بار بار بجتا ہے اور وہ پڑھائی روک کر بات کرتا ہے تو وہ کیسے امید کرے گا کہ اس کے طلباء فون نہ لانے کی اس کی بات پر عمل کریں گے۔
۶) ایک استاد کو اپنے طالب علموں کا دوست‘رہنما‘رہبر اور فلاسفر ہونا چاہئے۔ استاد اور طالب علم کے درمیان رشتہ کلاس روم کے باہر بھی دوستانہ انداز کا قائم رہے۔ طلبا بہت سے شک و شبہات دور کرنا چاہتے ہیں استاد کو چاہئے کہ وہ الگ وقت دے کر کسی طالب علم سے اس کے شک وشبہات دور کرے۔طالب علم نصاب سے متعلق اور اس کی ذاتی زندگی کے کسی مسئلے سے متعلق سوال کرنا چاہتا ہے اگر استاد اسے وقت دے اور اس کے مسئلے پر گفتگو کرے تو طالب علم کے دل میں استاد کی محبت بڑھے گی اور وہ استاد کا ادب و احترام کرتے ہوئے اس کی ہربات مانے گا۔موجودہ دور میں کالج کے طلبا کے پیش نظر کئی مسائل ہوتے ہیں۔ اور انہیں تناؤ کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ والدین اور وہ خود اپنے بارے میں پر امید ہوتے ہیں کہ اعلیٰ نشانات سے کامیابی حاصل کرنا ہے۔ اس کے علاوہ دوستوں کی صحبت‘ مخالف جنس کی جانب رغبت اور انٹرنیٹ پر موجود اچھے برے مواد کو دیکھنے کی آزادی پر کنٹرول کرنا ایسے مسائل ہیں جن میں آج کے دور کا طالب علم گھرا ہوا ایک اچھا شفیق اور مہربان دوست صفت استاد طالب علم کے ان مسائل پر اسے اچھا مشورہ دے سکتا ہے۔ پیشہ وارانہ اخلاق میں استاد کے لئے ضروری ہے کہ وہ اوقات کی پابندی کرے اور کام برائے تنخواہ کام نہ کرے بلکہ دل و جذبے سے کام کرے۔ اس طرح مجموعی طور پر تعلیمی شعبہ میں کام کرنے والے اساتذہ بہتر اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک مثالی استاد بن سکتے ہیں۔
پیشہ طب کے اخلاق Ethics in Medicine: زمانہ قدیم سے پیشہ طب سے وابستہ ڈاکٹروں کی سماج میں بڑی عظمت ہے۔ اور انہیں زندہ خدا سمجھا جاتا ہے کیونکہ مریضوں کا علاج کرتے ہوئے وہ مسیحا کا لقب اختیار کر لیتے ہیں۔ تیسری صدی قبل مسیح میں چراکا نامی طبیب نے اطباء کے لئے کچھ اقدار پر مبنی اصول پیش کئے تھے جنہیں آج بھی طبیب اختیار کرتے ہیں۔ اس نے علاج کے چار مراحل بتائے تھے۔ طبیب‘مریض‘دوا اور پرہیز۔ طبیب کو صفائی کا خیال رکھے ہوئے مریضوں کا علاج کرنا ہوتا ہے۔ 460-370ق۔ م کے دوران بقراط نامی یونانی طبیب تھا اسے بابائے طب کہا جاتا ہے۔ اس نے مرض کے طبی معائنے پر زور دیا اور طبیبوں کے لئے اصول طب مرتب کئے۔آج بھی ڈاکٹروں کو ان کی تعلیم کی تکمیل پر ایک قسم کا حلف دلایا جاتا ہے۔اس حلف میں طبیبوں اور ڈاکٹروں کو پیشہ طب کے اعتبار سے چند اقدار کی پابندی کا عہد دلایا جاتاہے۔ بقراط کے حلف نامے کی تفصیلات اس طرح ہیں۔
۱) اپنی صلاحیت کے مطابق مریضوں کا بہترین پیمانے پر منصفانہ علاج کرنا۔
۲) مریض کو دوران علاج کسی بھی قسم کے نقصان سے بچانا۔
۳) حمل گرانے میں تعاون سے بچنا اور رحمدلی کی موت دلانے سے بچنا۔
۴) مریضوں خاص طور سے عورتوں کے علاج کے دوران رشوت طلب نہ کرنا۔
۵) مریضوں کے امراض کے بارے میں ممکنہ حد تک رازداری برتنا۔
۶) اپنے مفادات سے ذیادہ مریضوں کے مفادات کا لحاظ رکھنا۔
۷) اپنے ہم پیشہ ڈاکٹروں میں جو جس شعبہ کاماہر ہے اس کے لئے مریضوں کو چھوڑ دیناکے ان کاعلاج وہ کرے یہ نہ کرے۔
ہندوستان اور دنیا بھر کے ڈاکٹروں کے لئے اخلاق اور اقدار کے یہ اصول قائم ہیں لیکن عملی طور پر دیکھاجائے تو آج دنیا کے کئی ممالک میں اسقاط حمل اور رحمدلی کی موت جیسے جرائم کو قانونی حیثیت حاصل ہے۔ ہندوستان میں بالراست طریقے سے موت کا راستہ کھول دینا جیسے ایسا مریض جس کے بچنے کی کوئی امید نہیں اور اسے زندگی سے ہی تکلیف ہورہی ہو تو اس کی زندگی بچانے کے آلات جیسے وینٹیلیٹر یا آکسیجن وغیرہ ہٹا لیا جاتا ہے جس سے مریض قدرتی طور پر بغیر زہر کے انجکشن کے موت کی آغوش میں چلا جاتا ہے اور اس کی تکالیف کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ جیسے طریقہ کار کو 2011ء سے منظوری دی گئی۔ یہ فیصلہ ارونا شان باگ نامی نرس کو موت دینے کے سلسلے میں دیا گیا جب کہ وہ 37سال سے مصنوعی آلہ تنفس پر تھی۔ پیشہ طب کی عظمت کے باوجود موجودہ دور میں ڈاکٹرس اپنے مریضوں سے بہت لوٹ مار کر رہے ہیں ۔ مریضوں سے غیر ضروری امتحانات کراتے ہیں اور فیس کے طور پر بھاری رقومات حاصل کرتے ہیں۔ میڈیکل ہال اور پیتھالوجیکل لیب سے ان کا گٹھ جوڑ ہوتا ہے اور مریضوں کو ٹیسٹ کرانے اور غیر ضروری دوائیں لکھ کر روپیہ بٹورا جارہا ہے۔یہ اس لئے ہورہا ہے کہ میڈیکل کی تعلیم کے لئے طالب علموں سے لاکھوں روپے کیاپیٹیشن فیس لی جارہی ہے۔ ایم بی بی ایس کے لئے پچاس لاکھ اور ایم ڈی کے لئے دو سے تین کروڑ لئے جارہے ہیں۔ تعلیم کے خاتمہ کے بعد یہ لوگ اپنا لگایا ہواروپیہ عوام سے لینے کی خاطر ان کا خون چوس رہے ہیں۔ کسی کی موت پر مریض کے رشتے دار ڈاکٹروں پر مقدمے دائر کر رہے ہیں اسی طرح خانگی دواخانوں میں یومیہ آمدنی کا درجہ برقرار رکھنے کے لئے بھی مریضوں سے من مانی رقومات لی جارہی ہیں۔دوا ساز کمپنیاں ڈاکٹروں کو تفریح کے لئے دور دراز مقامات کے ٹکٹ اور تحائف دے رہے ہیں تاکہ ڈاکٹر ان کی کمپنی کی دوا مریضوں کے لکھے۔ یہ تمام باتیں ان دنوں پیشہ طب میں سرائیت کر گئیں ہیں جس سے پیشہ طب بدنام ہے لیکن مریض زندگی کے سامنے بے بس ہے وہ کچھ بھری کرے گا ڈاکٹر کا پیٹ بھرے گا اور علاج کرائے گا۔ ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ آج کے طبیب اور ڈاکٹر پیشہ طب کی عظمت بحال کریں اور پیشہ سے وابستہ اخلاق اور اقدار کی پاسداری کریں۔
سیاست میں اقدار: اردو کے مشہور شاعر علامہ اقبال نے کہا کہ’’ ممالک شاعر کے دلوں میں پیدا ہوتے ہیں اور سیاست دان کے ہاتھوں پروان چڑھ کر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔‘‘ پالیٹکس کا لفظ یونانی لفظpolisسے بنا ہے جس کا مطلب قوم یا مملکت ہے۔ قدیم یونانی فلسفیوں ارسطو اور افلاطون نے اپنے سیاسی افکار میں مثالی ریاست کا نقشہ پیش کیا ہے۔ انہوں نے مثالی ریاست کے قیام کے لئے سیاست کو ایک شاخ کے طور پر دیکھنے کی بات کی۔ انہوں نے کہا کہ مثالی ریاست کا نظام چلانے والے سیاست دان دانشور‘دور اندیش اور مخلص ہونا چاہئے۔ مہاتما گاندھی نے مشورہ دیا تھا کہ سیاست اخلاقیات کا حصہ ہونا چاہئے۔ وہ خود بھی سادگی اور اخلاص کی اعلی مثال تھے۔انہوں نے ملک کی جدوجہد آزادی کی تحریک میں ستیہ اور اہنسا کے اصول اپنا ئے اور ملک کو آزادی دلانے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل کی۔ یہ اصول آج بھی عوام اور سیاست دانوں کے لئے رہنما ہیں۔ ملک کی آزادی کے وقت عام خیال یہ تھا کہ اس ملک کے سیاست دان عوام کی فلاح و بہبود کے لئے بے لوث ہو کر کام کریں گے۔ تاہم افسوس کی بات ہیکہ یہ نہیں ہوسکا۔آج سیاست رشوت خوری‘جرائم اور لوٹ مار کا اہم ذریعے ہوگئی ہے۔ آج کسی بھی سیاست دان کو عوام معصوم نہیں سمجھتے۔ کیون کہ یہ زندگی بھر ناجائز طریقوں سے دولت بٹورتے ہیں اور انتخابات جیتنے کے لئے کالا دھن بے حساب خرچ کرتے ہیں اور انتخاب جیتنے کے بعد پھر اس رقم کو دگنی کرنے کے چکر میں عوام سے لوٹ مار کرتے ہیں اور سرکاری خزانے سے چوری چھپے دولت بٹورتے رہتے ہیں۔ سیاست دانوں کے بارے میں بے شمار لطیفے عوام میں مقبول ہیں ۔ جیسے ایمان دار سیاست دان۔ جب کہ سیاست میں ایمان داری دور دور تک نہیں ملتی۔
سیاست دانوں کے لئے اقدار:
۱) سیاست دان شخصی طور پر ایمان دار اور بااخلاق ہو۔
۲) سیاست دان کو چاہئے کہ وہ عوام کی فلاح و بہبود کا پابند ہو۔
۳) عوام کے مسائل سے آگہی رکھے اور ان کے حل کے لئے کوشش کرے۔
۴) مسائل کو ترجیحی بنیاد پر حل کرے۔ دلوں کو خوش کرنے والے وعدے نہ کرے اور ایسی اسکیمات پر عمل کرائے جس سے سرکاری خزانے پر بوجھ پڑتا ہو۔
۵) وسائل کے لئے بھر پور فنڈ دے اور انہیں مناسب ڈھنگ سے خرچ کرے۔
۶) فلاح و بہبود کی اسکیموں پر تیزی سے عمل کرائے۔
۷) بیرونی دباؤ اور پارٹی کی جانب سے اندرونی خلفشار کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتاہو۔
۸) مسائل کے حل کے لئے اختراعی اسکیمات اور پروگرام شروع کرے۔
۹) قوانین کی پاسداری کرے۔ دوران الیکشن بھی دولت کے استعمال کے بارے میں شفافیت برتے۔
۱۰)رشوت خوری اور اقتدار کے بے جا استعمال کو پروان چڑھنے نہ دے۔
۱۱) لوگوں سے ہمدردی رکھے‘خاص طور سے سماج کے کمزور طبقات سے ہمدردی رکھے۔ اور خواتین کا احترام کرے۔
۱۲) سیاست دانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ پارلیمنٹ‘ اسمبلی اور مجالس مقامی اداروں کے وقار کی پاسداری کریں اور عوام میں بھی اپنی عزت اور وقار کو برقرار رکھیں۔
شہریوں کی بھی کچھ سیاسی ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ وہ انتخابات کے وقت قابل اور اہل عوامی نمائیندوں کا انتخاب کریں۔ اور جب وہ عوامی نمائیندے منتخب ہوکر آتے ہیں تو ان کی کارگذاری پر نظر رکھیں اور انہیں اپنے فرض منصبی سے بھٹکنے نہ دیں۔ عوام اور سیاست دان مل کی ملک کی بہتر خدمت کرسکتے ہیں اور مناسب منصوبہ بندی اور ان پر ایمانداری اور خلوص نیت کے ساتھ عمل کرتے ہوئے ملک کو ترقی کی راہ پر لگایا جاسکتا ہے۔
محکمہ پولیس میں اقدار: محکمہ پولیس بھی ان دنوں عوام کے غیض و غضب کا شکار ہے۔ عوام کو شکایت ہے کہ جرائم کے خلاف عوام کی حفاظت کرنے کے بجائے غیر چند ملک دشمن پولیس کے عملے کے ارکان مجرمین سے ساز باز کرکے عوام کو انصاف دلانے سے روک رہے ہیں۔ ایسے میں محکمہ پولیس کی فرض شناسی داؤ پر لگ جاتی ہے۔ پولیس کی ذمہ داری ہے کہ وہ قانون پر عمل کرائے‘علاقے میں امن کی برقراری کو یقینی بنائے اور تمام شہریوں کی زندگی ‘ان کی جائیداد اور حقوق کی حفاظت کرے۔ وزارت داخلی امور نے1985ء میں محکمہ پولیس کے لئے ضابطہ اخلاق ترتیب دیا۔ جس کے تحت پولیس کے ملازمین کو حسب ذیل اصولوں پر عمل کرنا ضروری قرار دیا گیا ہے۔
۱) دستور ہند سے وفا داری اور تمام شہریوں کے حقوق کو عزت دینا۔
۲) فرائض کی انجام دہی کے دوران جان کی قربانی دینے کے لئے تیار رہنا۔
۳) تمام قوانین کو لاگو کرنا چاہے ان کی اہمیت ہو یا نہ ہو۔
۴) بغیر کسی ڈر اور خوف ‘جانبداری یامخاصمت کے تمام قوانین کو لاگو کرنا۔
۵) شدید ضرورت کے وقت ہی طاقت کا استعمال کرنا اور اس میں بھی احتیاط کرنا۔
۶) اپنے حدود میں کام کرنا اور عدلیہ سے مداخلت نہیں کرنا اور نہ ہی ملزم کو سزا دینا۔
۷) یاد رہے کہ پولیس کے ملازمین بھی عوام کا ہی حصہ ہیں۔
۸) پہلے مرحلے میں ہی جرائم کی روک تھام کرنا نہ کہ جرم ہونے کے بعد اس کی تفتیش کرنا۔
۹) عوامی نمائیندوں کا اعتماد حاصل کرنا اور ان سے عزت حاصل کرنا۔ جن کی مدد کے بغیر پولیس کام نہیں کرسکتی۔
۱۰) عوام کے غریب اور امیر دونوں طبقے سے ہمدردی سے پیش آنا۔ سماج کے بچھڑے طبقات او ر خواتین کے معاملات میں خصوصی توجہ دینا۔
۱۱) عوام سے دوستانہ ماحول میں کام کرنا۔
۱۲) خانگی زندگی میں ایمانداری اور سلامتی رویہ اختیار کرتے ہوئے عوامی خدمت کے لئے دستیاب رہنا۔
۱۳) مسلسل تربیت کے ذریعے کبھی بھی حرکت میں آنے کے لئے تیار رہنا۔
۱۴) ذات پات‘رنگ و نسل اور مذہبی بھید بھاؤ سے اوپر اٹھ کرعوامی خدمت کے جذبے کے تحت کام کرنا۔
پولیس کے لئے مندرجہ بالاسنہری اصول ہیں ۔ لیکن عملی طور پر دیکھا جارہاہے کہ موجودہ زمانے میں پولیس فورس میں رشوت عام ہوگئی ہے۔ پولیس ملازمین رشوت لے کر مجرمین کو چھوٹ دے رہے ہیں۔ اس سے عوام انصاف سے محروم ہورہے ہیں۔ سماج میں پھیلی منشیات کی لعنت‘جسم فروشی کی لعنت وغیرہ کو روکنے کے لئے سخت اقدامات کے بجائے پولیس والے ہفتہ وصول کرکے اس طرح کے جرائم کو ڈھیل دے رہے ہیں۔ سڑک پرکاروبار کرنے والوں اور تاجرین کو ذبردستی چالان کیا جاتا ہے اور حقیقی مجرمین کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ کسی واقعہ کے بعد ایف آئی آر درج کرنے میں پولیس ٹال مٹول کرتی ہے کیونکہ ایف آئی آر درج کرنے کے بعد اس کیس پر تحقیقات لازمی ہوجاتی ہیں۔ لوگ تنگ آکر ایف آئی آر درج کرانے سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ پولیس کی صفوں سے غلط کردار کے افسران کو بے نقاب کیا جائے اور انہیں راہ راست پر لایا جائے۔ ملک میں اگر پولیس اپنے فرض منصبی کو بہتر طور پرنبھائے تو جرائم کم ہوانہیں راہ راست پر لایا جائے۔ ملک میں اگر پولیس اپنے فرض منصبی کو بہتر طور پرنبھائے تو جرائم کم ہونگے اور عوام چین و سکون کے ساتھ زندگی بسر کر سکیں گے۔
کچھ پیشوں کے لئے درکار اقدار کے اس مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری زندگی میں ہر پیشہ مقدس ہے اور اس سے ایمان داری لازمی ہے۔ مقولہ مشہور ہے کہ فرد کی اصلاح سے سماج کی اصلاح ممکن ہے۔ اصلاح کے لئے کبھی سزا و جزا کا پہلو بھی ضروری لگتا ہے کہ خاطی کو سخت سزا دی جائے اور اچھا کام کرنے والے کی ستائش کی جائے تو سماج میں اقدار تیزی سے پروان چڑھ سکتے ہیں اس کے لئے ہم سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔