Friday, June 26, 2020

زندگی۔۔Zindagi .


انسان کو خدا کی طرف سے جو نعمتیں حاصل ہیں ان میں سب سے عظیم نعمت زندگی ہے انسان جب عدم سے وجود میں آتا ہے اور شعور کی منزل کو پہونچتاہے تو اس کے عمل کا وقت شروع ہو جاتا ہے اور مقررہ مدت میں زندگی کے مختلف مراحل طے کرتے ہوئے اس دارفانی سے کوچ کرجاتا ہے۔ انگریزی کے مشہور شاعر ڈرامہ نگار شیکسپئرنے اپنی ایک نظم میں بڑی خوبصورتی سے انسانی زندگی کو پیش کیا ہے ۔ اس کاکہنا ہے کہ یہ دنیا ایک اسٹیج کی طرح ہے جس پر زندگی کا ڈرامہ کھیلا جاتا ہے ۔ انسان کی پیدائش کی ساتھ اس کی زندگی کا ڈرامہ شروع ہو جاتا ہے اور انسان دنیا کی اس اسٹیج پر بچپن ‘ جوانی اور بڑھا پی میں مختلف کردار ادا کرتی ہوئی اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے اور جاتے جاتے اپنے اچھے اور برے کارناموں کی یادیں چھوڑ جاتا ہے ۔ دیکھا جائے تو انسانی زندگی جدوجہد اور عمل سے بھر پور ہے ۔ قدرت نے انسان کو پیٹ کی بھوک مٹانے کے لئیے ‘ کوشش اور جدوجہد کی تلقین کی ۔ اسی جد وجہد سے دنیا کا سارا نظام اور کار خانے بنائے ۔ اگر انسان زندہ رہنے کے لئیے کوشش اور عمل نہ کرے تو زندگی کا وجود ممکن نہیں ۔ انسان کی محنت و عمل سے ہی اس دنیا کی رونق ہے ۔ اسی لئے شاعر کہتا ہے
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی ٭ یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
            انسان زندگی ہمیشہ پھولوں کا سیج نہیں ہوتی اس کی راہ میں مشکلات ‘مصائب و آلام کے کانٹے بھی ہیں۔ اور ان مشکلوں کو پار کرنے کے بعد جو راحت چین و سکون ملتا ہے اس کا مزہ ہی کچھ اور ہوتا ہے ۔ یہ فطرت کا قانون ہے کہ ہر رات کی بعد صبح ہوتی ہے ہر نشیب کی بعد فراز ہوتا ہے ۔ اسی طرح ہر مشکل کی بعد آسانیاں آتی ہیں ۔ اگر زندگی میں مشکلات نہ ہوں تو انسان کو حقیقی راحت و سکون اور خوشیوں کا مزہ ہی نہیں ملتا تھا۔ زندگی کو ایک جدوجہد اور چیلنج سمجھ کر اسے قبول کرنے والے اور اس کی راہ میں آنے والی دشواریوں کا مقابلہ کرنے والے انسان ہی اس دنیا میں سر اٹھا کر جی سکتے ہیں ۔ بے عمل لوگوں کے لئے اس دنیا میں کوئی مقام نہیں ہے اور وہ آنی والی وقت اور زمانی کی ہاتھوں کچلی جاتی ہےں اسی لئے شاعر کہتا ہے ۔
            چلنے والے نکل گئے ہیں  جوٹہرے ذرا کچل گئے ہیں
                                                                                      OOO
            انسان کو اپنی زندگی ہنسی خوشی سے گذار نا چاہئے ۔ اگر اس کی زندگی میں خوشیاں آئیں تو خود بھی خوش ہوناچاہئے ۔ اور دوسرو ں میں بھی اپنی خوشیوں کو بانٹنا چاہئے ۔ اور خوشی ملنے پر خدا کا شکر ادا کرنا چاہئے ۔ خوشی کی ساتھ ساتھ انسان کی زندگی میں غم بھی آتے ہیں ۔ غم آنے پر انسان کو مایوس نہیں ہونا چاہئے اور نہ ہی لوگوں سے اور خدا سے گلے شکوے کرنے چاہئیں ۔ مشکلات اور غم آنے پر صبر کرنا چاہئے ۔ اسی میں انسان کی بھلائی ہے ۔دنیا میں جتنی بھی بڑی اور نامور شخصیتیں گذری ہیں ان کے بچپن کے حالات پڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ انتہائی نامساعد حالات میں انہوں نیں امید کا دامن نہیں چھوڑا اور اپنی زندگی کی کشتی کو بھنور سی نکال کر لائے اور رہتی دنیا تک لوگوں کی لئے مثال بن گئے اس لئے انسان کو چاہئے کہ وہ اپنی زندگی ہنسی خوشی اور زندہ دلی سے گذاردے۔ زندگی کو ہنسی خوشی گذارنے کے بارے میں شاعر کہتا ہے کہ
                                    زند گی زندہ دلی کا نام ہے          مردہ دل کیا خاک جیا کرتے ہیں
                                                                        OOO 
            زندگی ایک امتحان بھی ہے اور یہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے ۔ اور یہاں کے امتحان میں وہی کامیاب ہو سکتا ہے جو وقت کی قدر کرتے ہوئی زندگی کے مراحل طے کرتا ہے دنیا میں انسان کے سامنے طرح طرح کے امتحان آتے ہیں اسی لئے شاعر کہتا ہے
  نہ رو ہم نشیں یہ جہاں اور ہی ہے       یہاں کی رہ امتحان اور ہی ہے
                                                                        OOO 
            انسان کو خدا کبھی دولت ‘ صحت اور خوشیاں دے کر امتحان میں ڈالتا ہے توکبھی ان نعمتوں کو چھین کر امتحان میں ڈالتا ہے ۔ دولت ملنے پر شکر ادا کرتے ہوئے اور مصیبتوں میں صبر کرتے ہوئے انسان کو زندگی کے اس امتحان میں کامیابی حاصل کرنی چاہئے۔ زندگی میں کچھ لوگ اپنی حدوں کو پار کر جاتے ہیں ۔ اور مصیبتوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ لیکن عقل مند انسان وہے ہوتا ہے جو زندگی میں اپنی چادر کی حدتک پیر پھیلانے کی عادت رکھتا ہے ۔ اسی بات کو سمجھاتے ہوئے مشہور شاعر اکبر الہ آبادی اپنی ایک رباعی میں کہتے ہیں ۔
                          عالم نے یہاں قبول ورد کو جانا
                          دیکھا دنیا کو نیک و بد کو جانا
                          عاقل وہ ہے کہ جس نے ہنگام عمل
                          اپنی قوت کو اپنی حد کو جانا
                                    OOO 
            زندگی امتحان کی طرح ایک سفر بھی ہے ۔ بچہ جب پہلی مرتبہ اس دنیا میں آنکھ کھولتا ہے تو اس کی زندگی کے سفر کا آغاز ہوتا ہے ۔ اگر انسان زندگی کی مختلف مراحل میں وقت اور زمانے کے کارواں کا ساتھ دے کر آگے بڑھتا رہے تو وہ زندگی کے سفر کی ہر منزل میں کامیاب ہو سکتا ہے ۔ بچپن میں اچھی تعلیم حاصل کرتے ہوئے ۔ جوانی میں عملی زندگی کی تیاری کرتے  ہوئے ۔ اورآگے اپنی خاندان کی کفالت کی ذمہ داری سنبھالتے ہوئے انسان زندگی کی راہیں کامیابی سے طے کر سکتا ہے ۔ اس کے لئے انسان کو سستی اور کاہلی چھوڑ کر عمل کے لئے آمادہ رہنا چاہئے اور کل کا کام آج کر اور آج کا کام ابھی کر کے مقولے پر عمل کرتے ہوئی زندگی گذارنی چاہئے ۔ ایسے ہی انسان دنیا میں کامیاب ہوتے ہیں ۔ انسانی زندگی کا پہلا سفر موت کی منزل پر ختم ہوتا ہے ۔ اور اس کی بعد آخرت کا سفر شروع ہوتا ہے ۔ اس کے لئے بھی انسان کو زندگی ہی میں عمل کا توشہ تیار کرنا پڑتا ہے ۔ اگر کوئی انسان ریلوے اسٹیشن پر تاخیر سے پہونچے اور ریل جاچکی ہو تو وہ یہ شکائت نہیں کرسکتا کہ ریل اس کو لئے بغیر کیوں چلی گئی ۔ اس کی بر خلاف اسے وقت پر اسٹیشن پہونچنے کی عادت ڈالنی چاہئیے ۔ یہی حال زندگی کے مختلف مراحل کا ہے ۔ دنیا میں مواقع تو بہت ہوتے ہیں ۔ لیکن انہیں اپنے لئے کار آمد بنانے کے لئے انسان کو خود آگے آنا ضروری ہے ۔ کچھ لوگوں کے لئیے زندگی ایک بوجھ معلوم ہوتی ہے ۔ اور وہ زندگی سے فرار حاصل کرنے کے لئے خودکشی کرنا چاہتے ہیں ۔ لیکن انسان کو یہ جان لینا چایئے کہ زندگی خدا کی طرف سے عطا کردہ ایک امانت ہے اور اس میں خیانت کرنے کا انسان کو کوئی حق حاصل نہیں ۔ اسی لئے انسان کو مشکلات کا ہمت و حوصلہ سے سامنا کرتے ہوئی زندگی کی کشتی کو طوفان سے ساحل تک لانے کی کوشش کرنی چاہئے ۔

Thursday, June 25, 2020

مہلت اور غفلت۔کرونا کے دنوں میں


کرونا وبا کے ان دنوںمیں جب بھی سوشل میڈیا کے صفحات کھولتے ہیں یا اخبار کا کوئی صفحہ دیکھتے ہیں تو ہر طرف موت کا ہی چرچا ہے۔ماہرین کہہ رہے ہیں کہ مرنے والوں کا فیصد کم ہے اور اس مرض سے اسی پچاسی فیصد لوگ بچ جائیں گے۔ لیکن جو مرنے کا سلسلہ ہے وہ تھمنے کا نام نہیں لیتا۔ اسی پچاسی فیصد میں کون خوش نصیب رہیں گے اور مرنے والوں میں کون رہیں گے یہ تو مالک حقیقی ہی جانتا ہے۔ لیکن کرونا کی وباءنے ایک طرح سے زندگی کی رونقیں چھین لی ہیں۔ زندگی لگتا ہے جیسے تھم گئی ہے سمٹ گئی ہے۔ لوگ گھروں میں مقید ہوگئے ہیں اب کوئی گھر آتا ہے تو دل میں یہ بات پیدا ہوتی ہے کہ کیوں آیا کیا اس کے ساتھ کرونا بھی آئے گا۔ اس لیے لوگ ملنے سے کترا رہے ہیں پہلے جو کہا جاتا تھا یہ نئے مزاج کا شہر ہے ذرا فاصلے سے ملا کرو۔کرونا نے اسے حقیقت بنادیا اور اب ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ نئے مزاج کا مرض ہے ذرا فاصلے سے رہا کرو۔انسانوں سے فاصلہ ہی اس مرض سے بچا ٹہرا۔ جب کہ زندگی نام ہی تھی اجتماعیت کی۔ ہماری مسجدیں ویران ہوگئیں۔ تعلیمی ادارے سنسان ہوگئے۔ شادی بیاہ کی رونقیں ماند پڑ گئیں۔ سائنس حیران و پریشان ہے اس ان دیکھے وائرس سے۔روز کوئی نہ کوئی اپنا گزرجاتا ہے اور ہم صرف اس کے حق میں دعا کرتے رہتے ہیں۔ ان حالات میں ہم نے لاک ڈان کے ایام گزار دئیے ۔ ماہ رمضان آیا اور گیا۔ معیشت کو چلانے کے لیے لاک ڈان ختم کیا گیا لیکن اس کے ساتھ وبا تیزی سے پھیلنے لگی۔ جو مر رہے ہیں وہ تو اپنے انجام کو پہنچ رہے ہیں جو بچ گئے ہیں انہیں اللہ نے مہلت دی ہے۔ اب زندگی اس قدر غیر یقینی ہوگئی ہے کہ انسان طویل مدتی منصوبے بھی نہیں بنا سکتا۔ اب اگر وہ باہر گیا تو گھر آتے ہیں سنیٹائزر سے ہاتھ دھو لے اپنے آپ کو صاف کرلے اور گھر میں داخل ہو۔ اللہ نے بتادیا کہ وہ ہی کارساز ہے اور ہم عاجز بندے اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرتے ہوئے اس سے اس وائرس کے خاتمے کی دعا کرتے ہیں۔ ان حالات میں وقت گزر رہا ہے دھیمے دھیمے ۔ خوف اور ہیبت کے عالم میں۔ انسانوں کو مہلت ملی ہے کہ وہ اپنے رب کے حضور توبہ کرلیں۔ اپنے معاملات درست کرلیں۔ اور ہمہ تن عبادت الہی اور رضائے الہی میں لگ جائیں ۔مہلت کے ساتھ جب ہم لفظ غفلت پر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ ہماری پرانی روش رہی ہے کہ کتنی ہی بڑی پریشانی آئے ہم سے اکثر لوگ چکنے گھڑے کی مانند بات کو ان دیکھا کردیتے ہیں۔ کرونا سے مرنے والوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے لیکن ہماری غفلت میں کچھ کمی نہیں آرہی ہے۔ نہ ہم احتیاط کرتے ہیں اور نہ ہی غفلت کو ترک کرتے ہیں کرونا نے دکھا دیا ہے کہ اس عارضی دنیا میں انسانوں کو جو پہلے ہی کم مہلت ملی تھی وہ اور غیر یقینی ہوگئی ہے ایسے میں خوش نصیب ہیں وہ انسان جنہوں نے لاک ڈان میں کار خیر کئے اور اب بھی کار خیر کر رہے ہیں انفرادی طور پر اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہیں۔ اور ایک مسافر کی طرح زندگی کے بوجھ کو کم سے کم رکھتے ہوئے رخت سفر کے لیے تیار کھڑے ہیں۔ اس وبا نے دکھا دیا کہ لمبی آرزیں کچھ کام کی نہیں ۔ انسان کو روز کی بنیاد پر کام کرنا ہے اور اپنے رب سے عافیت مانگتے رہنا چاہئے۔پتہ نہیں کب مہلت ختم ہوجائے اور زندگی کی ڈور کٹ جائے۔ نوجوان وقت کا زیان کر رہے ہیں فون میں لگے ہیں رات ساری جاگنے میں دن سارا سونے میں گزار رہے ہیں ۔ سب سے بڑا نقصان تعلیمی شعبے کا ہوا ہے بچے بڑے نوجوان سب پریشان ہیں۔خانگی روزگار والے پریشان ہیں۔ حکومتیں بھی معاشی تنگ دامنی کے بوجھ تلے دبی چلی جارہی ہیں۔ ایسے میں ضرورت ہے کہ سب اللہ کی جانب سے ملی اس مہلت کو غنیمت جانیں اپنے روٹھے ہوئے رب کو منائیں وہی ایک کارساز ہے جو اس وباءکو ہم سے دور کرسکتا ہے اور وہی ہماری زندگی کی رونقیں لوٹا سکتا ہے۔ مہلت کو غنیمت جانیں غفلت ترک کریں ۔ یہی کرونا کا پیغام ہے۔