کرونا وبا کے ان دنوںمیں جب بھی سوشل میڈیا کے صفحات کھولتے ہیں یا اخبار
کا کوئی صفحہ دیکھتے ہیں تو ہر طرف موت کا ہی چرچا ہے۔ماہرین کہہ رہے ہیں کہ مرنے والوں
کا فیصد کم ہے اور اس مرض سے اسی پچاسی فیصد لوگ بچ جائیں گے۔ لیکن جو مرنے کا سلسلہ
ہے وہ تھمنے کا نام نہیں لیتا۔ اسی پچاسی فیصد میں کون خوش نصیب رہیں گے اور مرنے والوں
میں کون رہیں گے یہ تو مالک حقیقی ہی جانتا ہے۔ لیکن کرونا کی وباءنے ایک طرح سے زندگی
کی رونقیں چھین لی ہیں۔ زندگی لگتا ہے جیسے تھم گئی ہے سمٹ گئی ہے۔ لوگ گھروں میں مقید
ہوگئے ہیں اب کوئی گھر آتا ہے تو دل میں یہ بات پیدا ہوتی ہے کہ کیوں آیا کیا اس کے
ساتھ کرونا بھی آئے گا۔ اس لیے لوگ ملنے سے کترا رہے ہیں پہلے جو کہا جاتا تھا یہ نئے
مزاج کا شہر ہے ذرا فاصلے سے ملا کرو۔کرونا نے اسے حقیقت بنادیا اور اب ہم کہہ سکتے
ہیں کہ یہ نئے مزاج کا مرض ہے ذرا فاصلے سے رہا کرو۔انسانوں سے فاصلہ ہی اس مرض سے
بچاﺅ ٹہرا۔ جب کہ زندگی نام ہی تھی اجتماعیت کی۔ ہماری مسجدیں ویران ہوگئیں۔
تعلیمی ادارے سنسان ہوگئے۔ شادی بیاہ کی رونقیں ماند پڑ گئیں۔ سائنس حیران و پریشان
ہے اس ان دیکھے وائرس سے۔روز کوئی نہ کوئی اپنا گزرجاتا ہے اور ہم صرف اس کے حق میں
دعا کرتے رہتے ہیں۔ ان حالات میں ہم نے لاک ڈاﺅن کے ایام گزار دئیے ۔ ماہ رمضان
آیا اور گیا۔ معیشت کو چلانے کے لیے لاک ڈاﺅن ختم کیا گیا لیکن اس کے ساتھ وبا
تیزی سے پھیلنے لگی۔ جو مر رہے ہیں وہ تو اپنے انجام کو پہنچ رہے ہیں جو بچ گئے ہیں
انہیں اللہ نے مہلت دی ہے۔ اب زندگی اس قدر غیر یقینی ہوگئی ہے کہ انسان طویل مدتی
منصوبے بھی نہیں بنا سکتا۔ اب اگر وہ باہر گیا تو گھر آتے ہیں سنیٹائزر سے ہاتھ دھو
لے اپنے آپ کو صاف کرلے اور گھر میں داخل ہو۔ اللہ نے بتادیا کہ وہ ہی کارساز ہے اور
ہم عاجز بندے اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرتے ہوئے اس سے اس وائرس کے خاتمے
کی دعا کرتے ہیں۔ ان حالات میں وقت گزر رہا ہے دھیمے دھیمے ۔ خوف اور ہیبت کے عالم
میں۔ انسانوں کو مہلت ملی ہے کہ وہ اپنے رب کے حضور توبہ کرلیں۔ اپنے معاملات درست
کرلیں۔ اور ہمہ تن عبادت الہی اور رضائے الہی میں لگ جائیں ۔مہلت کے ساتھ جب ہم لفظ
غفلت پر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ ہماری پرانی روش رہی ہے کہ کتنی ہی بڑی پریشانی
آئے ہم سے اکثر لوگ چکنے گھڑے کی مانند بات کو ان دیکھا کردیتے ہیں۔ کرونا سے مرنے
والوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے لیکن ہماری غفلت میں کچھ کمی نہیں آرہی ہے۔ نہ ہم
احتیاط کرتے ہیں اور نہ ہی غفلت کو ترک کرتے ہیں کرونا نے دکھا دیا ہے کہ اس عارضی
دنیا میں انسانوں کو جو پہلے ہی کم مہلت ملی تھی وہ اور غیر یقینی ہوگئی ہے ایسے میں
خوش نصیب ہیں وہ انسان جنہوں نے لاک ڈاﺅن میں کار خیر کئے اور اب بھی کار
خیر کر رہے ہیں انفرادی طور پر اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہیں۔ اور ایک مسافر کی طرح
زندگی کے بوجھ کو کم سے کم رکھتے ہوئے رخت سفر کے لیے تیار کھڑے ہیں۔ اس وبا نے دکھا
دیا کہ لمبی آرزﺅیں کچھ کام کی نہیں ۔ انسان کو روز کی بنیاد پر کام کرنا ہے اور اپنے رب
سے عافیت مانگتے رہنا چاہئے۔پتہ نہیں کب مہلت ختم ہوجائے اور زندگی کی ڈور کٹ جائے۔
نوجوان وقت کا زیان کر رہے ہیں فون میں لگے ہیں رات ساری جاگنے میں دن سارا سونے میں
گزار رہے ہیں ۔ سب سے بڑا نقصان تعلیمی شعبے کا ہوا ہے بچے بڑے نوجوان سب پریشان ہیں۔خانگی
روزگار والے پریشان ہیں۔ حکومتیں بھی معاشی تنگ دامنی کے بوجھ تلے دبی چلی جارہی ہیں۔
ایسے میں ضرورت ہے کہ سب اللہ کی جانب سے ملی اس مہلت کو غنیمت جانیں اپنے روٹھے ہوئے
رب کو منائیں وہی ایک کارساز ہے جو اس وباءکو ہم سے دور کرسکتا ہے اور وہی ہماری زندگی
کی رونقیں لوٹا سکتا ہے۔ مہلت کو غنیمت جانیں غفلت ترک کریں ۔ یہی کرونا کا پیغام ہے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔