Wednesday, May 6, 2015
Tuesday, April 14, 2015
Wednesday, March 25, 2015
مرے حصے میں ماں آئی- از ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی
Posted by
ڈاکٹر اسلم فاروقی کا اردو بلاگ
مرے حصے میں ماں آئی
از : ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی
صدر شعبہ اردو گرراج گورنمنٹ کالج نظام آباد
draslamfaroqui@gmail.com
از : ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی
صدر شعبہ اردو گرراج گورنمنٹ کالج نظام آباد
draslamfaroqui@gmail.com
دنیا میں جتنے بھی انسانی رشتے ہیں۔ان میں سب مقدس اور عظمت والا رشتہ ’ ’ماں‘‘ کا ہوتا ہے۔ماں اولاد کو جنم دیتی ہے۔ پال پوس کر بڑا کرتی ہے۔ اور ایک کمزور اور ناتواں پودے کو تناور درخت میں تبدیل کرتی ہے۔ اولاد کو ماں سے محبت ہو یا نہ ہولیکن ماں ہر حال میں اپنی اولاد پر ممتا نچھاور کرتی رہتی ہے۔ خود بھوکی رہے گی لیکن اولاد کے لئے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرے گی۔ بچہ بیمار ہوجائے تو رات بھر جاگ کر اس کی تیمار داری کرے گی۔ اپنی اولاد کو ترقی کرتا دیکھ کر ماں خوش ہوتی ہے۔ اور امید کرتی ہے کہ بڑھاپے میں اس کی اولاد اس کا سہارا بنے گی۔ لیکن اکثر حالات میں ماں کی یہ خواہش پوری نہیں ہوتی۔ آج کل تو یہ کہاوت مشہور ہو گئی ہے کہ ایک ماں دس بچوں کو تو پال لیگی۔ لیکن دس بچے مل کر ایک ضعیف اور بوڑھی ماں کو نہیں پال رہے ہیں۔ اپنے والدین کے ساتھ ایسے غلط برتاؤ کے باوجود ماں اپنے بچے کے بہتر مستقبل لئے ہمیشہ دعا گو رہتی ہے۔دنیا کے ہر مذہب اور سنجیدہ معاشرے میں ماں کو اعلیٰ مقام اور مرتبے پر رکھا گیاہے۔ مذہب اسلام کی تعلیمات میں کہا گیا ہے کہ ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے۔بوڑھے ماں باپ کی خدمت جہاد سے بہتر ہے۔والدین سے صلہ رحمی ‘عمر کی درازی اور روزی میں کشادگی کا سبب ہے۔اور میدان حشر میں لوگوں کو ان کی ماں کی نسبت سے پکارا جائے گا۔ حضرت ابو حریرہؓ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا کہ اے خدا کے رسول ﷺ میرے نیک سلوک کا سب سے ذیادہ حق دار کون ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا تیری ماں۔اس نے پوچھا پھر کون تو آپ ﷺ نے فرمایا تیری ماں۔اس نے پوچھا پھر کون تو آپ ﷺ نے فرمایا تیرا باپ۔ نیک اور صالح اولاد والدین کی خدمت کرتے ہوئے اپنا فرض پدری پورا کرتی ہے۔ ہر سنجیدہ انسان ماں کے تئیں اچھے جذبات رکھتا ہے۔ لیکن ایک تخلیق کار جس نے اپنی ماں کے سایہ دار آنچل تلے اپنی زندگی کی دھوپ کاٹی ہو اور زندگی میں ماں کا بھر پور پیار حاصل کیا ہو جب وہ شاعر ہو اور اپنے فن کے ذریعے ماں کے بارے میں جذبات کا اظہار کرے تو دنیا کے سبھی فرماں بردار بچے اس کے ہم خیال بن جاتے ہیں۔ یوں تو شعرا اور ادیبوں نے گاہے گاہے اپنے فن کے ذریعے ماں کے مقدس رشتے کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔لیکن موجودہ دور کے ایک جذباتی شاعر منور رانا نے اپنی شعری تصنیف ’’ ماں‘‘ کے ذریعے اس رشتے کو بھر پور خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ماں کا ذکر عباد ت ہے۔ اور شادی سے قبل ہر بچے کی محبوبہ اس کی ماں ہوتی ہے۔ اپنی کتاب اور ماں کے بارے میں اپنی شاعری کی وجہہ بیان کرتے ہوئے منور رانا لکھتے ہیں کہ’’میں پوری ایمان داری سے اس بات کا تحریری اقرار کرتا ہوں کہ میں دنیا کے سب سے مقدس اور عظیم رشتے کا پرچار صرف اس لئے کرتا ہوں کہ اگر میرے شعر پڑھ کر کوئی بھی بیٹا اپنی ماں کا خیال کرنے لگے ‘رشتوں کی نزاکت کا احترام کرنے لگے تو شائد اس کے اجر میں میرے کچھ گناہوں کا بوجھ ہلکا ہو جائے۔ منور رانا نے سیدھے سادھے لیکن جذباتی انداز میں ماں سے اپنی وابستگی اور ان کے لئے ماں کی قربانیوں کو پیش کیا ہے۔ آئیے ان کے اور ایک بیٹے کا سفر زندگی میں ماں کے جذبات جاننے کے لئے ہم بھی اس سفر میں شامل ہوتے ہیں۔
شہر کے رستے ہوں چاہے گاؤں کی پگڈنڈی ماں کی انگلی تھام کر چلنا بہت اچھا لگا
انسان کا بچپن معصومیت کے ساتھ ساتھ ضد بھی سکھاتا ہے۔ خواہشات کی تکمیل نہ ہو تو رونا بھی جلد آتا ہے۔اپنے بچے کے آنسوؤں کو جذب کرتے ہوئے ماں اپنے دو پٹے کی حفاظت یوں کرتی ہے۔
میں نے روتے ہوئے پوچھے تھے کسی دن آنسو مدتوں ماں نے نہیں دھویا دو پٹہ اپنا
اور یہی دوپٹا بچے کے لئے تاروں بھرے آسمان سے بہتر ہوجاتا ہے۔
تیرے دامن میں ستارے ہیں تو ہونگے اے فلک مجھ کو اپنی ماں کی میلی اوڑھنی اچھی لگی
بچے کی پرورش کے لئے غریب اور بے سہارا ماں خود دکھ جھیلتی ہے۔ ضرورت پڑنے پر محنت مزدوری کرتی ہے۔ لیکن جب وہ اپنے بچے کو پروان چڑھتا دیکھی ہے تو اپنی ساری تکان بھول جاتی ہے۔
دن بھر کی مشقت سے بدن چور ہے لیکن ماں نے مجھے دیکھا تو تھکن بھول گئی ہے
بیٹا ماں کی محبت اور شفقت کے سائے میں پروان چڑھتا ہے اور اس قابل ہو جاتا ہے کہ گھر سے باہر نکل کر زندگی کے حوادث کا سامنا کر سکے۔ بیٹا ماں کے ہاتھ کی روٹی کھا کر کامیابی کی تلاش میں یہ سوچ کر اور اس یقین کے ساتھ نکلتا ہے کہ
ابھی زندہ ہے ماں میری مجھے کچھ بھی نہیں ہوگا میں گھر سے جب نکلتا ہو دعابھی ساتھ چلتی ہے
بیٹا شام میں تھکا ماندہ گھر آتا ہے۔ زندگی کی راہوں میں کبھی اسے دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ گھر میں گم سم بیٹھا ہے لیکن اسے احساس ہے کہ اس کی زندگی کے مسائل عارضی ہیں۔ اور ماں کی دعاؤ ں سے ضرور حل ہو جائیں گے۔
گھیر لینے کو جب بھی بلائیں آگئیں ڈھال بن کر سامنے ماں کی دعائیں آگئیں
جب بیٹے کی زندگی میں غم کی بلائیں کچھ ذیادہ ہی ہوجاتی ہیں تو ماں اپنے بیٹے کو ٹوٹنے بکھرنے نہیں دیتی اور اسے ممتا سے بھرا پیار دیتے ہوئے اپنی باہوں میں چھپا لیتی ہے۔ ماں کی باہوں کی محفوظ پناہ گا ہ کو یاد کرتے ہوئے بیٹا کہتا ہے۔
اب بھی چلتی ہے جب آندھی کبھی غم کی رانا ماں کی ممتا مجھے باہوں میں چھپالیتی ہے
حادثوں سے بچنے کے لئے بیٹا اپنی ماں کی دعاؤں کو موثر ہتھیار تصور کرتا ہے۔ اور اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ
حادثوں کی گرد سے خود کو بچانے کے لئے ماں ہم اپنے ساتھ بس تیری دعا لے جائیں گے
بچے کو اپنی ماں سے بے حد لگاؤ ہے۔ زندگی کی دھوپ چھاؤں میں ہر دم اسے اپنی ماں ہی دکھائی دیتی ہے۔ عباد ت کے لئے جب موذن کی اذان کانوں میں پڑتی ہے تو اسے لگتا ہے کہ اسے اپنی ماں بلا رہی ہے۔
کبھی کبھی مجھے یوں بھی اذاں بلاتی ہے شریر بچے کو جس طرح ماں بلاتی ہے
ہندوستان میں وطن کی مٹی کو ماں کا درجہ حاصل ہے۔ مادر وطن کی آبرو کی حفاظت اور اسے لٹنے سے بچانے کے لئے اور اسے
سر حدوں کی حفاظت کے لئے جب بھی ضروورت پڑی مادر وطن کے لالوں اور جیالوں نے اپنی جانیں نچھاور کی ہیں۔ لیکن کچھ لوگ اپنے وطن کے لئے جان قربان کرنے والے جیالوں کی قربانیوں کو فراموش کردیتے ہیں۔ اور انہیں ملک دشمن کہنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ ایسے میں شدت جذبات سے مغلوب ہوتے ہوئے یہ جیالے کہتے ہیں۔
سر پھرے لوگ ہمیں دشمن جاں کہتے ہیں ہم جو اس ملک کی مٹی کو بھی ماں کہتے ہیں
اپنے وطن کی سرزمین کو ماں کا درجہ دیتے ہوئے یہاں کے نوجوان اسے چھوڑ کر کہیں جانا نہیں چاہتے۔
یہیں رہوں گا کہیں عمر بھر نہ جاؤں گا زمین ماں ہے اسے چھوڑکر نہ جاؤں گا
لیکن پاپی پیٹ کا معاملہ ہے۔ انسان کو زندہ رہنے کے لئے دو وقت کی روٹی کی جستجو کرنا ہے۔ اور یہ روٹی وطن میں نہ ملے تو بیٹا وطن سے دور پردیس جاتا ہے۔ اپنی ماں سے ان جذبات کے ساتھ رخصت ہوتا ہے۔
پردیس جارہے تو تعویذ باندھ لو کہتی ہیں مائیں بچوں سے اپنے پکار کے
بچہ ماں کی دعائیں اور نصیحتیں لئے روزگار کی تلاش میں گھر سے دور سفر پر روانہ ہوجاتاہے۔ سفر میں دن تو کسی طرح کٹ جاتا ہے۔ لیکن رات آتے ہی بیٹا ماں کو اور ماں بیٹے کو یاد کرنے لگتے ہیں۔
وہ تو لکھا کے لائی ہے قسمت میں جاگنا ماں کیسے سو سکے گی کہ بیٹا سفر میں ہے
بیٹا پردیس پہونچتا ہے اور روزگار کے حصول کے لئے زمانے کے سر د گرم سہنے لگتا ہے۔ بیٹے کے بہتر مستقبل پر ناز کرتی ہوئی ماں برادری میں اپنی ناک اونچی کرتی ہے۔ لیکن ماں کی محبت کا بھوکا بیٹا کچھ اور ہی سوچتا ہے۔
برباد کردیا ہمیں پردیس نے مگر ماں سب سے کہہ رہی ہے کہ بیٹا مزے میں ہے
ایک عرصے بعد بیٹا گھر لوٹ کر آتا ہے۔ کیونکہ اس کا باپ اس سے جدا ہوگیا ہے۔ ماں کا سہارا چھن گیا۔ باپ کی جدائی پر اسے ماں کا غم بانٹنا ہے۔ اور اس کے لئے ایک گھنی چھاؤں فراہم کرنا ہے۔باپ نے عمر بھر کی اپنی کمائی لٹا کر زندگی کی دھوپ میں اپنے آپ کو جھلساتے ہوئے اپنے خاندان کے لئے ایک آشیاں بنایا تھا۔ لیکن اس آ شیاں کی چھاؤں میں وہ ٹھیک سے سو بھی نہ سکا تھا کہ ہمیشہ ہمیشہ کی ابدی نیند نے اسے سلادیا۔ زندگی بھر ماں باپ کو پلٹ کر نہ پوچھنے والے بیٹے اور رشتے دار اپنا حق لینے پہونچ گئے۔ تب ماں کی محبت میں ڈوبا بیٹا وراثت کی تقسیم کے بعد اپنے حصے میں آئی ماں کی دولت کو سنبھالتے ہوئے بے اختیار کہہ اٹھتا ہے کہ
کسی کو گھر ملا حصے میں یا کوئی دکاں آئی میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا مرے حصے میں ماں آئی
شوہر کی جدائی کے بعد بیوی پر غموں کا پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے۔ اپنی ماں کو سہارا دیتے ہوئے بیٹا لالچی ہوجاتا ہے۔ اسے خدا کا انصاف یاد آتا ہے۔ جیسے کو تیسا کے مصداق اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لئے وہ ماں کی خدمت میں یہ سوچ کر جٹ جاتا ہے کہ
یہ سوچ کے ماں باپ کی خدمت میں لگا ہوں اس پیڑ کا سایہ مرے بچوں کو ملے گا
موت ایک اٹل حقیقت ہے۔ ہر انسان کو یہ دنیا کا اسٹیج چھوڑ کر جانا ہے۔ چنانچہ اپنے دکھوں کے خاتمے کے ساتھ بچے کی ماں بھی اپنے بیٹے کو زندگی کی مشکل راہوں میں چلنا سکھا کر اسے روتا ہوا چھوڑ کر چلی جاتی ہے۔ بیٹا ماں کی جدائی پر رو پڑتا ہے۔ لیکن اسے تسلی دینے والے آجاتے ہیں۔
منور ماں کے آگے یوں کبھی کھل کر نہیں رونا جہاں بنیا د ہو اتنی نمی اچھی نہیں لگتی
ماں کی جدائی کی خبر سبھی بیٹوں کو دی جاتی ہے۔ لیکن زندگی کے کاروبار میں مصروف بیٹوں کو اتنی فرصت نہیں ملتی کہ وہ اپنی ماں کے جنازے کو کاندھا دینے کے لئے وقت پر پہونچ سکیں۔ اس طرح بیٹوں کے انتظار میں ماں کا جنازہ یو ں گویا ہے۔
اب دیکھئے کون آئے جنازے کو اٹھانے یوں تار تو میرے سبھی بیٹوں کو ملے گا
ماں کو الوداع کہنے کے بعد پیارابیٹا گھر آتا ہے۔ اور اپنی کھوئی ہوئی وراثت کو کھوجنے لگتا ہے۔
میں نے کل شب چاہتوں کی سب کتا بیں پھاڑ دیں صرف ایک کا غذ پہ لکھا لفظ ’’ماں‘‘ رہنے دیا
اس طرح منور رانا نے ماں کے تعلق سے اپنے جذبات کا اظہار کیا۔
۔
Tuesday, March 24, 2015
گرمائی تعطیلات اور بچوں کی دینی تعلیم وقت کا اہم تقاضہ از : ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی
Posted by
ڈاکٹر اسلم فاروقی کا اردو بلاگ
گرمائی تعطیلات اور
بچوں کی دینی تعلیم وقت کا اہم تقاضہ
از : ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی
صدر شعبہ اردو گرراج گورنمنٹ کالج نظام آباد
از : ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی
صدر شعبہ اردو گرراج گورنمنٹ کالج نظام آباد
ملک بھر میں مارچ اور
اپریل کے مہینے بچوں کے امتحانات کے مہینے ہوتے ہیں۔سال بھر پڑھائی کے بعد
امتحانات کا موسم آتا ہے۔ امتحانات ختم ہوتے ہی بچوں کو یہ خوشی ہوتی ہے کہ ان کا
ایک اور مصروف ترین تعلیمی سال ختم ہوا۔دیڑھ د و ماہ کی چھٹیوں کا پروگرام بنایا
جاتا ہے۔اب تو ہر گھر کے بچے شرارتی ہوگئے ہیں۔ اور ماں باپ یہ سوچتے ہیں کہ دس
مہینے اسکول چلنے سے انہیں سکون تھا او ر موسم گرما کی چھٹیوں میں بچوں کی شرارتوں
سے کیسے بچا جائے۔ کہا جاتا ہے کہ خالی گھر شیطان کا گھر ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر
گرمائی تعطیلات میں بچوں کو مصروف نہ رکھا جائے تو تربیت اور سیکھنے کی اس عمر میں
وہ اپنی شرارتوں سے شیطان کے دوست بن سکتے ہیں۔ اور ان کی شرارتوں سے گھر والوں اور
پڑوس کا سکون برباد ہوسکتا ہے۔ امتحانات کے دوران بچوں پر کھیل کود اور ٹیلی ویژن
دیکھنے کی جو پابند ی عائد تھی وہ چھوٹ جاتی ہے۔ اور آج کے دور کی نئی وبا انٹرنیٹ
اب کمپیوٹر کے ساتھ سیل فون میں بھی دستیاب ہوگئی ہے۔ انٹرنیٹ پر وقت کی بربادی کا
ایک سلسلہ فیس بک بھی ہے۔ جس پر ہمارے نوجوان روزانہ کئی گھنٹے برباد کر رہے ہیں۔
چھوٹے بچے ویڈیو گیمس کھیلنے لگتے ہیں۔ حیدرآباد میں تو محلوں میں ویڈیو گیمس کے
مراکز اور دکانوں پر بچوں کی اتنی دھوم رہتی ہے کہ یہ کاروبار کرنے والوں کا ناطقہ
بند ہوجاتا ہے۔کرکٹ کے دیوانے گرما میں وآئی پی ایل دیکھنے کا پروگرام بناتے ہیں۔
جس میں کم لباس والی لڑکیوں کے ناچ گانے بچوں کے اخلاق پر برا اثر ڈال سکتے ہیں۔
بہر حال آج کی دنیا میں بچوں کے وقت کی بربادی کے بہت سے سامان مہیا ہیں اور یہ
چیزیں مسلمانوں کے گھروں میں عام ہوگئی ہیں۔ ٹیلی ویژن اور کمپیوٹر کے اسکرین پر
مسلسل نظریں جمانے سے بچوں کی بینائی متاثر ہوسکتی ہے۔ اور مسلسل کرسی پر بیٹھنے
سے کمر کا درد ہو سکتا ہے۔ کھیل بچوں کے لئے ضروری ہے۔ لیکن گرمی کی شد ت میں صبح
یا شام میں ہی کھیل ممکن ہے۔ جسم کو بنانے کے کھیل آ ج کے بچے نہیں کھیل رہے ہیں۔
ٹیلی ویژن اور کمپیوٹر پر ڈاؤن لوڈ شدہ مضر اخلاق پروگرام مسلسل دیکھنے سے بچوں کے
اخلاق خراب ہورہے ہیں۔جھوٹ بولنا‘گالی گلوچ کرنا‘بڑوں کی نافرمانی کرنا اور غیر
اقوام کی تہذیب کو پسند کرنا جیسی برائیاں بچوں میں آرہی ہیں۔اپنے بچوں کو ان
برائیوں سے بچانا اور ان کی بہتر تربیت کرنا والدین کی ذمہ داری ہے۔ پہلے زمانے
میں لوگ اپنے بچوں کی تعلیم کی ابتدا قران اور دینی تعلیم سے کرتے تھے۔ اور بچوں
کو اللہ رسو ل اور دین کی باتیں معلوم ہوا کرتی تھیں۔ لیکن برا ہو اس مغربی تہذیب
کی نقالی کا آج ہر مسلمان چاہے وہ دولت مند ہو یا غریب اپنے بچے کو انگلش میڈیم
میں پڑھانا ضروری سمجھتا ہے۔ لیکن وہ نہیں سمجھتا کہ c for cat and d for dogوالی کتے بلی کی تعلیم
سے ہمارے بچوں کی یہ تربیت ہورہی ہے کہ بچے کھلاڑیوں اور ناچنے گانے والوں کے نام
اور کارنا مے تو جانتے ہیں لیکن نہیں جانتے تو یہ نہیں جانتے کہ ہمارے پیغمبر کون
ہیں۔ ان کے افراد خاندان کون ہیں۔ صحابہؓ کسے کہتے ہیں۔ صحابہؓ کے کارنامے کیا
ہیں۔ اور دین کی بنیادی باتیں کیا ہیں اور نماز کی اہم سورتیں کیا ہیں۔اگر آج ہم
بچوں کی اسلامی تعلیم کا نظم نہیں کریں گے تو یہی بچے بے دین ہوکر گھر اور سماج کے
لئے ناسور بن سکتے ہیں۔ اس لئے جہاں ہم سال کے دس مہینے بھاری بھاری فیس دے کر
بچوں کی دنیا میں کام آنے والی تعلیم کی جس کی کوئی گیارنٹی بھی نہیں فکر کر رہے
ہیں۔ کیا ہمارا ضمیر اس بات کو گوارہ نہیں کرتا کہ گرما کی چھٹیوں میں ہم اپنے اور
محلے کے تمام بچوں کی دینی تعلیم کی فکر نہ کریں۔ جب کہ یہ تعلیم بچوں کے اخلاق
سدھارنے اور ان کی مذہبی عبادات کے انجام دہی کے لئے ضروری ہے۔ اگر کسی کے باپ کا
انتقال ہو تو بہتر قرار دیا گیا ہے کہ اس کا بیٹا جنازے کی نماز پڑھائے لیکن ہم
اپنے دامن میں جھانک کر دیکھیں کہ ہم میں سے کتنے بیٹے نماز جنازپڑھانے کے لائق
ہیں ۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ کئی کو نماز جناز ہ میں پڑھی جانے والی دعاعیں تک
صحیح طور پر یاد نہیں ہیں۔ بچے کی شادی ہورہی ہے لیکن اسے پتہ نہیں کہ میاں بیوی
کے اسلام میں کیا فرائض اور حقوق ہیں۔ یہی وجہہ ہے کہ شادی کے بعد گھر جنت ہونے کے
بجائے جہنم ہورہا ہے اور چھوٹی چھوٹی نا اتفاقی پر بات طلاق تک جا پہونچ رہی ہے۔
ایسے ماحول میں اس بات کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے کہ مسلمان اپنے بچوں اور نوجوانو ں
کی اسلامی تربیت پر فوری توجہ دیں اور ان کے بہتر مستقبل کا سامان کریں۔امریکہ میں
مقیم ہندوستانیوں نے اپنے بچوں کی اسلامی تعلیمی تربیت کی فکر کی اور وہا ں اسلامی
سینٹر قائم کئے جہاں ہر اتوار کو ما ں باپ اپنے بچوں کے ساتھ دن گذارتے ہیں۔ اور
بچوں کے لئے الگ اور مردو خواتین کے لئے الگ تجوید کی تعلیم اور دیگر اسلامی
معلومات کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ وہاں کا پانچ سے دس سال کا بچہ
ہمارے مفتی اور عالم کے برابر دینی معلومات رکھتا اور اب تو وہاں کئی بچے قران حفظ
کر رہے ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ فکر کی جائے تو ہم لوگ بھی کم از کم موسم گرما
کی تعطیلات میں دینی گرمائی کلاسس اور مساجد ‘گھروں اور محلے کی سطح پر بچوں
‘نوجوانوں اور بالغوں کے لئے بھی الگ الگ درجے پر اسلامی اور اردو کی تعلیم کا نظم
کر سکتے ہیں۔ ہمارے بچوں کو اردو سکھانا بھی بہت ضروری ہے کیوں کہ اسلام کا بہت
بڑا لٹریچر اردو میں موجود ہے۔ قران کی تفاسیر اور حدیث اور فقہ کی کتابیں اردو
میں ہیں جن سے اسی وقت استفادہ ہو سکتا ہے جب کہ ہم اپنے بچوں کو اردو زبان
سکھائیں۔ زبان کے ساتھ بچہ تہذیب بھی سیکھتا ہے۔ اور اردو زبان کی اپنی شاندار
تہذیبی روایات ہیں۔ جس میں بڑوں کا ادب آپسی بھائی چارہ اور قومی یکجہتی اہم پہلو
ہیں۔ جو مغربی تعلیم میں نہیں ہیں۔اس لئے ہر محلے کے لوگ کوشش کریں کہ مسجد میں
صبح تا دوپہر دینی گرمائی کلاسس کا اہتمام ہو ۔حیدرآباد میں ادارہ سیاست اور جامعہ
نظامیہ کے اشترا ک سے دینی گرمائی کلاسس کا اہتما م کیا جاتا ہے۔ اور کلاسوں کے
اختتام پر امتحان کے بعد بچوں کو سند بھی دی جاتی ہے۔ انعام اور سند ملنے کے شوق
میں بچے دین کی ضروری باتیں سیکھیں گے۔ قران کی تجوید سے تلاوت سیکھیں گے اور
ضروری مسائل بھی سیکھیں گے۔ بہت سے لوگ ہیں جنہیں وضو صحیح طریقے سے کرنا نہیں
آتا۔ نماز صحیح نہیں پڑھتے اور ان کی عمر گذر رہی ہے۔ اس لئے مساجد میں ہفتہ میں
دو یا تین دین عشا ء کے بعد تعلیم بالغان کے نام سے بڑوں کے لئے بھی دینی کلاسوں
کا اہتمام ہو جس میں قران کی تلاوت اذکار نماز اور ضروری بنیادی فقہی مسائل سکھائے
جائیں۔ بہت سے دینی مدارس بھی گرما میں خصوصی دینی کلاسوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ جس
سے استفادے کی ضرورت ہے۔ دوپر میں دھوپ کی تمازت اور نیند کا غلبہ رہتا ہے۔ اس لئے
بچوں کو آدھے دن کی تعلیم کے بعد کچھ آرام کا موقع دینا چاہئے۔ عصر کے بعد کچھ دیر
باہر کھیل کود اور مغرب کے بعد گھر میں بڑوں کی نگرانی میں صحابہؓ کے واقعات کی
تعلیم اور حضور ﷺ کی سیرت بیان کی جائے اور بچوں کو دعائیں وغیرہ یاد دلائی جائیں
اور انہیں اردو سکھائی جائے۔ اسی طرح نوجوان بچوں کے لئے بعض دینی جماعتیں پروگرام
رکھتی ہیں ان سے استفادے کی ضرورت ہے۔ لڑکیاں پکوان اور دیگر سلائی اور دوسرے
کورسز کر سکتی ہیں۔ بہر حال وقت قیمتی ہے۔ اس کا مناسب استعمال ضروری ہے۔ اور اگر
ہم اپنے بچوں کو ہر سال گرمائی تعطیلات میں اس انداز میں مصروف کریں تو ان کی
اخلاقی تربیت ہوگی اور وہ نیک اور باکردار انسان بنیں گے۔ امید ہے کہ مسلم معاشرے
میں ان پہلوؤں پر غور کیا جائے گا۔
Sunday, March 22, 2015
یقین محکم—ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی
Posted by
ڈاکٹر اسلم فاروقی کا اردو بلاگ
یقین محکم—ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی
یقین
محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
اقبال
نے اس شعر میں دنیامیں رہنے والے انسانوں کے لئے کامیابی کی بنیادی کلید بیان کردی
ہے- دنیا میں انسان جب تک زندہ رہے اس
کے سامنے مختلف امتحان 'مختلف کام اور مختلف چیلنجس پیش آتے رہتے ہیں- انسان کے
سامنے جب کوئی امتحان یا کوئی مشکل کام آتا ہے تو وہ گھبرا جاتا ہے کہ کیا وہ یہ
کام کر سکے گا- اور بہت سے لوگ ہمت ہار جاتے ہین اور زندگی کے عملی میدان میں
ناکام رہتے ہیں- مثال کے طور پر اگر کوئی شخص قطب مینار کے سامنے ٹہرا ہے اور
چاہتا ہے کہ قطب مینار کی تمام سیڑھیاں چڑھ جائے- اور اسے اندزہ ہے کہ قطب مینار
کی ایک ہزار سیڑھیاں ہیں تو وہ پہلی سیڑھی پر ہی گھبرا جائے گا کہ وہ کیوں کر اتنی
ساری سیڑھیاں چڑھ پائے گا- اسی نا امیدی اور عدم اعتمادی میں وہ قطب مینار کی
سیڑھیاں نہیں چڑھ پائے گا- اس طرح کے امتحان کے لئے ضروری ہے کہ انسان اپنی صحت
اور اپنے وسائل کا اندازہ کر لے کچھ سامان سفر جیسے پانی بسکٹ وغیرہ ساتھ رکھ لے
اور پہلی سیڑھی پر یہ سوچ کر قدم رکھ لے کہ وہ ضرور قطب مینار کی تمام سیڑھیاں چڑھ
لے گا- شروع میں وہ سو سیڑھیاں چڑھ لے تو اس کے سامنے مزید نوسو سیڑھیاں رہیں گی
لیکن وہ جہد مسلسل کے ساتھ اوپر چڑھتا جائے تو ایک نہ ایک وقت وہ ضرور اپنی منزل
کو پا لے گا اور کامیاب و کامران ہوگا- مثال مشہور ہے کہ کچھوے اور خرگوش کی دوڑ
میں کچھوے نے اپنی سست رفتاری کے باوجود جہد مسلسل کے ساتھ آگے بڑھنے کی عادت جاری
رکھی اور تیز رفتار گھمنڈی خرگوش کے مقابلے میں وہ دوڑ جیت گیا تھا- ایک اور مثال
بادشاہ تیمور کی ہے جب اس نے غار میں بیٹھ کر ایک چیونٹی کو دیکھا کہ وہ اپنے سے
زیادہ وزن لے کر اوپر چڑھ رہی ہے دو ایک مرتبہ گر جاتی ہے لیکن حوصلہ نہیں ہارتی
اور مسلسل کوشش سے اپنے سے زیادہ وزن کو اپنی منزل تک لے جانے میں کامیاب ہوجاتی
ہے- چیونٹی کی مثال دیکھ کر بادشاہ کو حوصلہ ملتا ہے اور وہ باہر نکل کر اپنے
ساتھیوں کو جمع کرتا ہے اور ہاری ہوئی جنگ جیت لیتا ہے-یہ چند مثالیں ہیں ان
نوجوانوں کے لئے جو زندگی کے کاروان میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں لیکن اپنے سامنے
موجود کٹھن امتحانات کو دیکھ کر گھبرا جاتے ہیں اور اپنے مقاصد کی تکمیل نہیں کر
پاتے- ہندوستان میں ایک سو بیس کروڑ لوگ ہیں – اس بڑی آبادی والے ملک میں اپنے لئے
مقام حاصل کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں لیکن زندگی کے مختلف میدانوں میںلوگ
انفرادی کوشش اور جہد مسلسل سے مثالی کامیابی حاصل کر رہے ہیں- چاہے وہ ثانیہ مرزا
کی مثال ہو کہ سائنا نیہوال کی- دھونی ہو کہ ویراٹ کوہلی- ہر کوئی جہد مسلسل کے
ساتھ کامیابی حاصل کر رہا ہے- انسان کو چاہئے کہ وہ نا امیدی کو اپنے ذہن سے نکال
دے- اور جیسا کہ کہا گیا ہے کہ اپنی ڈکشنری سے ناممکن کے لفظ کو نکال دے- اور یہ
سوچ کر آگے بڑھے کے کسی بھی امتحان میں اگر ایک بھی کامیابی کی نشسست ہوگی تو ٹاپ
کی پوزیشن میری ہوگی- اقبال کے شعر کی روشنی میں کامیابی کی سب سے پہلی منزل
کامیابی کا یقین ہونا ہے کہ ایک طالب علم کو ایک کھلاڑی کو ایک سیاست دان کو اور
ایک تاجر کو اپنے مقصد میں کامیابی کا یقین ہو- اس کے لئے پہلے منزل کا تعین اور اس
کے امکانات جا ئزہ لینا ہے-مثال کے طور پر ایک نوجوان بڑا تاجر بننا چاہتا ہے اس
کے سامنے مثال ہے کہ کیسے جمشید جی ٹاٹا نے کم وسائل سے کام کرنا شروع کیا اور جہد
مسلسل سے ایک کامیاب صنعت کار بنے- چنانچہ نوجوان کو اپنی منزل کی تلاش میں جہد
مسلسل کے ساتھ لگ جانا چاہئے کہ وہ بزنس کے شعبہ میں اعلی تعلیم حاصل کرے حکومت کی
جانب سے فراہم کی جانے والی اسکیمات سے استفادہ کرے اور آگے بڑھے- آئی اے ایس کے
شعبے میں بھی عام نوجوان دلچسپی نہیں لیتے جب کہ شاہ فیصل جیسے نوجوانوں نے ثابت
کردیا کہ مسلمان بھی جہد مسلسل کے ساتھ ہندوستان کی باوقار سرویس میں آسکتا ہے-
یقین کی کمی کے باعث بہت سے نوجوان پیچھے رہ جاتے ہیں – اپنی منزل کے تعین کے بعد
مناسب منصوبہ بندی اور جہد مسلسل ضروری ہے- آئی اے ایس میں کامیابی کے لئے کہا
جاتا ہے کہ کمرہ بھر کتابیں روز 20 گھنٹے پڑھی جائیں تب کہیں اس امتحان میں
کامیابی ملتی ہے- امتحانوں کی تیاری میں بھی نوجوانوں کا رویہ درست نہیں – امتحان کی
تاریخ آنے کے بعد اگر پڑھائی کا سوچا جائے تو پڑھائی معیار کے مطابق نہیں ہوگی- اس
کے لئے سال بھر نصاب کو پڑھنا ہوگا- پڑھنے کا طریقہ یہ ہو کہ نصاب مکمل پڑھا جائے
اور اہم نکات کو مارکر قلم سے نمایاں کیا جائے تاکہ عین امتحان کے وقت آسانی سے
اعادہ کیا جاسکے- ثانیہ مرزا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے والدین نے چھ سال
کی عمر سے اسے ٹینس کھلانا شروع کیا تھا- آج کھیل بھی بڑا میدان ہے دولت اور شہرت
کمانے کا- اس لئے امریکہ اپنے طاقت ور کالے لوگوں کو دولت خرچ کرکے کھیل کے میدان
میں اتارتا ہے اور عالمی درجے کے کھلاڑی پیدا کرتا ہے- اگر کسی نوجوان میں صلاحیت
ہوتو وہ کھیل کو بھی اپنا پروفیشن بنا سکتا ہے- معاملہ انفرادی کامیابی کا ہو اکہ
اجتماعی سب سے پہلے یقین کا پکا ہونا بے حد ضروری ہے- ہندستان میں ایک عرصےسے
مسلمان اپنے آپ کو اقلیت میں اور کمزور سمجھتے ہیں اور زندگی کے ہر میدان میں
پیچھے ہیں- مسلمانوں میں اچھی قیادت اور مثبت سوچ والے اجتماعی شعور کی کمی ہے- اس
کے لئے نوجوان قیادت کو آگے آنا ہوگا اور جہد مسلسل کے ساتھ مسلمانوں کو ایک پلیٹ
فارم پر لا کر ان میں اپنے مسائل کو پہچاننے اور انہیں حل کرنے کا یقین پیدا کرنا
ہوگا تب ایک مرتبہ پھر حکومت کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں آسکتی ہے – تاریخ شاہد ہے
کہ باہر سے آنے والی مٹھی بھر قوموں نے لوگوں کے دل جیتے اور صدیوں تک اس ملک پر
حکومت کرکے یہاں اپنی حکومت کے ا ن مٹ نقوش چھوڑے- کیا اب دوبارہ ممکن نہین- ہے
لیکن اس کے لئے وہی کامل یقین اور جہد مسلسل کی ضرورت ہے- اقبال کے شعر میں یقین
محکم اور عمل پیہم کے بعد محبت فاتح عالم کی بات کی گئی- یہ سماجی رویہ ہے کہ
انسان اکیلے اپنی زندگی کے سب کام نہیں کر سکتا اس کے لئے اسے دوسرے لوگوں کی مدد
کی ضرورت پڑتی ہے – تب انسان کو چاہئے کہ وہ لوگوں سے محبت سے پیش آئے تو اس کے
ناممکن کام بھی ممکن ہوسکتے ہیں-اقبال نے دوسرے مصرعے میں کہا کہ زندگی ایک جہاد
ہے جس میں مردوں کی شمشیریں یہ تین اوزار ہیں – زندگی میں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں
جو زندگی کے چیلنج کو قبول کرتے ہیں اور ایسے کارنامے انجام دیتے ہیں کہ رہتی دنیا
تک ان کا نام باقی رہ جاتا ہے- اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہماری نوجوان اقبال
کے اس شعر سے روشنی حاصل کریں اور جہد مسلسل کے ساتھ کام کرتے ہوئے اپنی زندگی کے
مقاصد کی تکمیل کریں-
Saturday, March 21, 2015
ادب ہی سے انسان انسا ن ہے -از : ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی
Posted by
ڈاکٹر اسلم فاروقی کا اردو بلاگ
ادب ہی سے انسان انسا ن
ہے
از : ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی
از : ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی