گرمائی تعطیلات اور
بچوں کی دینی تعلیم وقت کا اہم تقاضہ
از : ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی
صدر شعبہ اردو گرراج گورنمنٹ کالج نظام آباد
از : ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی
صدر شعبہ اردو گرراج گورنمنٹ کالج نظام آباد
ملک بھر میں مارچ اور
اپریل کے مہینے بچوں کے امتحانات کے مہینے ہوتے ہیں۔سال بھر پڑھائی کے بعد
امتحانات کا موسم آتا ہے۔ امتحانات ختم ہوتے ہی بچوں کو یہ خوشی ہوتی ہے کہ ان کا
ایک اور مصروف ترین تعلیمی سال ختم ہوا۔دیڑھ د و ماہ کی چھٹیوں کا پروگرام بنایا
جاتا ہے۔اب تو ہر گھر کے بچے شرارتی ہوگئے ہیں۔ اور ماں باپ یہ سوچتے ہیں کہ دس
مہینے اسکول چلنے سے انہیں سکون تھا او ر موسم گرما کی چھٹیوں میں بچوں کی شرارتوں
سے کیسے بچا جائے۔ کہا جاتا ہے کہ خالی گھر شیطان کا گھر ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر
گرمائی تعطیلات میں بچوں کو مصروف نہ رکھا جائے تو تربیت اور سیکھنے کی اس عمر میں
وہ اپنی شرارتوں سے شیطان کے دوست بن سکتے ہیں۔ اور ان کی شرارتوں سے گھر والوں اور
پڑوس کا سکون برباد ہوسکتا ہے۔ امتحانات کے دوران بچوں پر کھیل کود اور ٹیلی ویژن
دیکھنے کی جو پابند ی عائد تھی وہ چھوٹ جاتی ہے۔ اور آج کے دور کی نئی وبا انٹرنیٹ
اب کمپیوٹر کے ساتھ سیل فون میں بھی دستیاب ہوگئی ہے۔ انٹرنیٹ پر وقت کی بربادی کا
ایک سلسلہ فیس بک بھی ہے۔ جس پر ہمارے نوجوان روزانہ کئی گھنٹے برباد کر رہے ہیں۔
چھوٹے بچے ویڈیو گیمس کھیلنے لگتے ہیں۔ حیدرآباد میں تو محلوں میں ویڈیو گیمس کے
مراکز اور دکانوں پر بچوں کی اتنی دھوم رہتی ہے کہ یہ کاروبار کرنے والوں کا ناطقہ
بند ہوجاتا ہے۔کرکٹ کے دیوانے گرما میں وآئی پی ایل دیکھنے کا پروگرام بناتے ہیں۔
جس میں کم لباس والی لڑکیوں کے ناچ گانے بچوں کے اخلاق پر برا اثر ڈال سکتے ہیں۔
بہر حال آج کی دنیا میں بچوں کے وقت کی بربادی کے بہت سے سامان مہیا ہیں اور یہ
چیزیں مسلمانوں کے گھروں میں عام ہوگئی ہیں۔ ٹیلی ویژن اور کمپیوٹر کے اسکرین پر
مسلسل نظریں جمانے سے بچوں کی بینائی متاثر ہوسکتی ہے۔ اور مسلسل کرسی پر بیٹھنے
سے کمر کا درد ہو سکتا ہے۔ کھیل بچوں کے لئے ضروری ہے۔ لیکن گرمی کی شد ت میں صبح
یا شام میں ہی کھیل ممکن ہے۔ جسم کو بنانے کے کھیل آ ج کے بچے نہیں کھیل رہے ہیں۔
ٹیلی ویژن اور کمپیوٹر پر ڈاؤن لوڈ شدہ مضر اخلاق پروگرام مسلسل دیکھنے سے بچوں کے
اخلاق خراب ہورہے ہیں۔جھوٹ بولنا‘گالی گلوچ کرنا‘بڑوں کی نافرمانی کرنا اور غیر
اقوام کی تہذیب کو پسند کرنا جیسی برائیاں بچوں میں آرہی ہیں۔اپنے بچوں کو ان
برائیوں سے بچانا اور ان کی بہتر تربیت کرنا والدین کی ذمہ داری ہے۔ پہلے زمانے
میں لوگ اپنے بچوں کی تعلیم کی ابتدا قران اور دینی تعلیم سے کرتے تھے۔ اور بچوں
کو اللہ رسو ل اور دین کی باتیں معلوم ہوا کرتی تھیں۔ لیکن برا ہو اس مغربی تہذیب
کی نقالی کا آج ہر مسلمان چاہے وہ دولت مند ہو یا غریب اپنے بچے کو انگلش میڈیم
میں پڑھانا ضروری سمجھتا ہے۔ لیکن وہ نہیں سمجھتا کہ c for cat and d for dogوالی کتے بلی کی تعلیم
سے ہمارے بچوں کی یہ تربیت ہورہی ہے کہ بچے کھلاڑیوں اور ناچنے گانے والوں کے نام
اور کارنا مے تو جانتے ہیں لیکن نہیں جانتے تو یہ نہیں جانتے کہ ہمارے پیغمبر کون
ہیں۔ ان کے افراد خاندان کون ہیں۔ صحابہؓ کسے کہتے ہیں۔ صحابہؓ کے کارنامے کیا
ہیں۔ اور دین کی بنیادی باتیں کیا ہیں اور نماز کی اہم سورتیں کیا ہیں۔اگر آج ہم
بچوں کی اسلامی تعلیم کا نظم نہیں کریں گے تو یہی بچے بے دین ہوکر گھر اور سماج کے
لئے ناسور بن سکتے ہیں۔ اس لئے جہاں ہم سال کے دس مہینے بھاری بھاری فیس دے کر
بچوں کی دنیا میں کام آنے والی تعلیم کی جس کی کوئی گیارنٹی بھی نہیں فکر کر رہے
ہیں۔ کیا ہمارا ضمیر اس بات کو گوارہ نہیں کرتا کہ گرما کی چھٹیوں میں ہم اپنے اور
محلے کے تمام بچوں کی دینی تعلیم کی فکر نہ کریں۔ جب کہ یہ تعلیم بچوں کے اخلاق
سدھارنے اور ان کی مذہبی عبادات کے انجام دہی کے لئے ضروری ہے۔ اگر کسی کے باپ کا
انتقال ہو تو بہتر قرار دیا گیا ہے کہ اس کا بیٹا جنازے کی نماز پڑھائے لیکن ہم
اپنے دامن میں جھانک کر دیکھیں کہ ہم میں سے کتنے بیٹے نماز جنازپڑھانے کے لائق
ہیں ۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ کئی کو نماز جناز ہ میں پڑھی جانے والی دعاعیں تک
صحیح طور پر یاد نہیں ہیں۔ بچے کی شادی ہورہی ہے لیکن اسے پتہ نہیں کہ میاں بیوی
کے اسلام میں کیا فرائض اور حقوق ہیں۔ یہی وجہہ ہے کہ شادی کے بعد گھر جنت ہونے کے
بجائے جہنم ہورہا ہے اور چھوٹی چھوٹی نا اتفاقی پر بات طلاق تک جا پہونچ رہی ہے۔
ایسے ماحول میں اس بات کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے کہ مسلمان اپنے بچوں اور نوجوانو ں
کی اسلامی تربیت پر فوری توجہ دیں اور ان کے بہتر مستقبل کا سامان کریں۔امریکہ میں
مقیم ہندوستانیوں نے اپنے بچوں کی اسلامی تعلیمی تربیت کی فکر کی اور وہا ں اسلامی
سینٹر قائم کئے جہاں ہر اتوار کو ما ں باپ اپنے بچوں کے ساتھ دن گذارتے ہیں۔ اور
بچوں کے لئے الگ اور مردو خواتین کے لئے الگ تجوید کی تعلیم اور دیگر اسلامی
معلومات کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ وہاں کا پانچ سے دس سال کا بچہ
ہمارے مفتی اور عالم کے برابر دینی معلومات رکھتا اور اب تو وہاں کئی بچے قران حفظ
کر رہے ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ فکر کی جائے تو ہم لوگ بھی کم از کم موسم گرما
کی تعطیلات میں دینی گرمائی کلاسس اور مساجد ‘گھروں اور محلے کی سطح پر بچوں
‘نوجوانوں اور بالغوں کے لئے بھی الگ الگ درجے پر اسلامی اور اردو کی تعلیم کا نظم
کر سکتے ہیں۔ ہمارے بچوں کو اردو سکھانا بھی بہت ضروری ہے کیوں کہ اسلام کا بہت
بڑا لٹریچر اردو میں موجود ہے۔ قران کی تفاسیر اور حدیث اور فقہ کی کتابیں اردو
میں ہیں جن سے اسی وقت استفادہ ہو سکتا ہے جب کہ ہم اپنے بچوں کو اردو زبان
سکھائیں۔ زبان کے ساتھ بچہ تہذیب بھی سیکھتا ہے۔ اور اردو زبان کی اپنی شاندار
تہذیبی روایات ہیں۔ جس میں بڑوں کا ادب آپسی بھائی چارہ اور قومی یکجہتی اہم پہلو
ہیں۔ جو مغربی تعلیم میں نہیں ہیں۔اس لئے ہر محلے کے لوگ کوشش کریں کہ مسجد میں
صبح تا دوپہر دینی گرمائی کلاسس کا اہتمام ہو ۔حیدرآباد میں ادارہ سیاست اور جامعہ
نظامیہ کے اشترا ک سے دینی گرمائی کلاسس کا اہتما م کیا جاتا ہے۔ اور کلاسوں کے
اختتام پر امتحان کے بعد بچوں کو سند بھی دی جاتی ہے۔ انعام اور سند ملنے کے شوق
میں بچے دین کی ضروری باتیں سیکھیں گے۔ قران کی تجوید سے تلاوت سیکھیں گے اور
ضروری مسائل بھی سیکھیں گے۔ بہت سے لوگ ہیں جنہیں وضو صحیح طریقے سے کرنا نہیں
آتا۔ نماز صحیح نہیں پڑھتے اور ان کی عمر گذر رہی ہے۔ اس لئے مساجد میں ہفتہ میں
دو یا تین دین عشا ء کے بعد تعلیم بالغان کے نام سے بڑوں کے لئے بھی دینی کلاسوں
کا اہتمام ہو جس میں قران کی تلاوت اذکار نماز اور ضروری بنیادی فقہی مسائل سکھائے
جائیں۔ بہت سے دینی مدارس بھی گرما میں خصوصی دینی کلاسوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ جس
سے استفادے کی ضرورت ہے۔ دوپر میں دھوپ کی تمازت اور نیند کا غلبہ رہتا ہے۔ اس لئے
بچوں کو آدھے دن کی تعلیم کے بعد کچھ آرام کا موقع دینا چاہئے۔ عصر کے بعد کچھ دیر
باہر کھیل کود اور مغرب کے بعد گھر میں بڑوں کی نگرانی میں صحابہؓ کے واقعات کی
تعلیم اور حضور ﷺ کی سیرت بیان کی جائے اور بچوں کو دعائیں وغیرہ یاد دلائی جائیں
اور انہیں اردو سکھائی جائے۔ اسی طرح نوجوان بچوں کے لئے بعض دینی جماعتیں پروگرام
رکھتی ہیں ان سے استفادے کی ضرورت ہے۔ لڑکیاں پکوان اور دیگر سلائی اور دوسرے
کورسز کر سکتی ہیں۔ بہر حال وقت قیمتی ہے۔ اس کا مناسب استعمال ضروری ہے۔ اور اگر
ہم اپنے بچوں کو ہر سال گرمائی تعطیلات میں اس انداز میں مصروف کریں تو ان کی
اخلاقی تربیت ہوگی اور وہ نیک اور باکردار انسان بنیں گے۔ امید ہے کہ مسلم معاشرے
میں ان پہلوؤں پر غور کیا جائے گا۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔