Sunday, March 22, 2015

یقین محکم—ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی

یقین محکمڈاکٹر محمد اسلم فاروقی

یقین محکم عمل  پیہم محبت فاتح عالم      جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں







اقبال نے اس شعر میں دنیامیں رہنے والے انسانوں کے لئے کامیابی کی بنیادی کلید بیان کردی ہے-    دنیا میں انسان جب تک زندہ رہے اس کے سامنے مختلف امتحان 'مختلف کام اور مختلف چیلنجس پیش آتے رہتے ہیں- انسان کے سامنے جب کوئی امتحان یا کوئی مشکل کام آتا ہے تو وہ گھبرا جاتا ہے کہ کیا وہ یہ کام کر سکے گا- اور بہت سے لوگ ہمت ہار جاتے ہین اور زندگی کے عملی میدان میں ناکام رہتے ہیں- مثال کے طور پر اگر کوئی شخص قطب مینار کے سامنے ٹہرا ہے اور چاہتا ہے کہ قطب مینار کی تمام سیڑھیاں چڑھ جائے- اور اسے اندزہ ہے کہ قطب مینار کی ایک ہزار سیڑھیاں ہیں تو وہ پہلی سیڑھی پر ہی گھبرا جائے گا کہ وہ کیوں کر اتنی ساری سیڑھیاں چڑھ پائے گا- اسی نا امیدی اور عدم اعتمادی میں وہ قطب مینار کی سیڑھیاں نہیں چڑھ پائے گا- اس طرح کے امتحان کے لئے ضروری ہے کہ انسان اپنی صحت اور اپنے وسائل کا اندازہ کر لے کچھ سامان سفر جیسے پانی بسکٹ وغیرہ ساتھ رکھ لے اور پہلی سیڑھی پر یہ سوچ کر قدم رکھ لے کہ وہ ضرور قطب مینار کی تمام سیڑھیاں چڑھ لے گا- شروع میں وہ سو سیڑھیاں چڑھ لے تو اس کے سامنے مزید نوسو سیڑھیاں رہیں گی لیکن وہ جہد مسلسل کے ساتھ اوپر چڑھتا جائے تو ایک نہ ایک وقت وہ ضرور اپنی منزل کو پا لے گا اور کامیاب و کامران ہوگا- مثال مشہور ہے کہ کچھوے اور خرگوش کی دوڑ میں کچھوے نے اپنی سست رفتاری کے باوجود جہد مسلسل کے ساتھ آگے بڑھنے کی عادت جاری رکھی اور تیز رفتار گھمنڈی خرگوش کے مقابلے میں وہ دوڑ جیت گیا تھا- ایک اور مثال بادشاہ تیمور کی ہے جب اس نے غار میں بیٹھ کر ایک چیونٹی کو دیکھا کہ وہ اپنے سے زیادہ وزن لے کر اوپر چڑھ رہی ہے دو ایک مرتبہ گر جاتی ہے لیکن حوصلہ نہیں ہارتی اور مسلسل کوشش سے اپنے سے زیادہ وزن کو اپنی منزل تک لے جانے میں کامیاب ہوجاتی ہے- چیونٹی کی مثال دیکھ کر بادشاہ کو حوصلہ ملتا ہے اور وہ باہر نکل کر اپنے ساتھیوں کو جمع کرتا ہے اور ہاری ہوئی جنگ جیت لیتا ہے-یہ چند مثالیں ہیں ان نوجوانوں کے لئے جو زندگی کے کاروان میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں لیکن اپنے سامنے موجود کٹھن امتحانات کو دیکھ کر گھبرا جاتے ہیں اور اپنے مقاصد کی تکمیل نہیں کر پاتے- ہندوستان میں ایک سو بیس کروڑ لوگ ہیں – اس بڑی آبادی والے ملک میں اپنے لئے مقام حاصل کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں لیکن زندگی کے مختلف میدانوں میںلوگ انفرادی کوشش اور جہد مسلسل سے مثالی کامیابی حاصل کر رہے ہیں- چاہے وہ ثانیہ مرزا کی مثال ہو کہ سائنا نیہوال کی- دھونی ہو کہ ویراٹ کوہلی- ہر کوئی جہد مسلسل کے ساتھ کامیابی حاصل کر رہا ہے- انسان کو چاہئے کہ وہ نا امیدی کو اپنے ذہن سے نکال دے- اور جیسا کہ کہا گیا ہے کہ اپنی ڈکشنری سے ناممکن کے لفظ کو نکال دے- اور یہ سوچ کر آگے بڑھے کے کسی بھی امتحان میں اگر ایک بھی کامیابی کی نشسست ہوگی تو ٹاپ کی پوزیشن میری ہوگی- اقبال کے شعر کی روشنی میں کامیابی کی سب سے پہلی منزل کامیابی کا یقین ہونا ہے کہ ایک طالب علم کو ایک کھلاڑی کو ایک سیاست دان کو اور ایک تاجر کو اپنے مقصد میں کامیابی کا یقین ہو- اس کے لئے پہلے منزل کا تعین اور اس کے امکانات جا ئزہ لینا ہے-مثال کے طور پر ایک نوجوان بڑا تاجر بننا چاہتا ہے اس کے سامنے مثال ہے کہ کیسے جمشید جی ٹاٹا نے کم وسائل سے کام کرنا شروع کیا اور جہد مسلسل سے ایک کامیاب صنعت کار بنے- چنانچہ نوجوان کو اپنی منزل کی تلاش میں جہد مسلسل کے ساتھ لگ جانا چاہئے کہ وہ بزنس کے شعبہ میں اعلی تعلیم حاصل کرے حکومت کی جانب سے فراہم کی جانے والی اسکیمات سے استفادہ کرے اور آگے بڑھے- آئی اے ایس کے شعبے میں بھی عام نوجوان دلچسپی نہیں لیتے جب کہ شاہ فیصل جیسے نوجوانوں نے ثابت کردیا کہ مسلمان بھی جہد مسلسل کے ساتھ ہندوستان کی باوقار سرویس میں آسکتا ہے- یقین کی کمی کے باعث بہت سے نوجوان پیچھے رہ جاتے ہیں – اپنی منزل کے تعین کے بعد مناسب منصوبہ بندی اور جہد مسلسل ضروری ہے- آئی اے ایس میں کامیابی کے لئے کہا جاتا ہے کہ کمرہ بھر کتابیں روز 20 گھنٹے پڑھی جائیں تب کہیں اس امتحان میں کامیابی ملتی ہے- امتحانوں کی تیاری میں بھی نوجوانوں کا رویہ درست نہیں – امتحان کی تاریخ آنے کے بعد اگر پڑھائی کا سوچا جائے تو پڑھائی معیار کے مطابق نہیں ہوگی- اس کے لئے سال بھر نصاب کو پڑھنا ہوگا- پڑھنے کا طریقہ یہ ہو کہ نصاب مکمل پڑھا جائے اور اہم نکات کو مارکر قلم سے نمایاں کیا جائے تاکہ عین امتحان کے وقت آسانی سے اعادہ کیا جاسکے- ثانیہ مرزا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے والدین نے چھ سال کی عمر سے اسے ٹینس کھلانا شروع کیا تھا- آج کھیل بھی بڑا میدان ہے دولت اور شہرت کمانے کا- اس لئے امریکہ اپنے طاقت ور کالے لوگوں کو دولت خرچ کرکے کھیل کے میدان میں اتارتا ہے اور عالمی درجے کے کھلاڑی پیدا کرتا ہے- اگر کسی نوجوان میں صلاحیت ہوتو وہ کھیل کو بھی اپنا پروفیشن بنا سکتا ہے- معاملہ انفرادی کامیابی کا ہو اکہ اجتماعی سب سے پہلے یقین کا پکا ہونا بے حد ضروری ہے- ہندستان میں ایک عرصےسے مسلمان اپنے آپ کو اقلیت میں اور کمزور سمجھتے ہیں اور زندگی کے ہر میدان میں پیچھے ہیں- مسلمانوں میں اچھی قیادت اور مثبت سوچ والے اجتماعی شعور کی کمی ہے- اس کے لئے نوجوان قیادت کو آگے آنا ہوگا اور جہد مسلسل کے ساتھ مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر لا کر ان میں اپنے مسائل کو پہچاننے اور انہیں حل کرنے کا یقین پیدا کرنا ہوگا تب ایک مرتبہ پھر حکومت کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں آسکتی ہے – تاریخ شاہد ہے کہ باہر سے آنے والی مٹھی بھر قوموں نے لوگوں کے دل جیتے اور صدیوں تک اس ملک پر حکومت کرکے یہاں اپنی حکومت کے ا ن مٹ نقوش چھوڑے- کیا اب دوبارہ ممکن نہین- ہے لیکن اس کے لئے وہی کامل یقین اور جہد مسلسل کی ضرورت ہے- اقبال کے شعر میں یقین محکم اور عمل پیہم کے بعد محبت فاتح عالم کی بات کی گئی- یہ سماجی رویہ ہے کہ انسان اکیلے اپنی زندگی کے سب کام نہیں کر سکتا اس کے لئے اسے دوسرے لوگوں کی مدد کی ضرورت پڑتی ہے – تب انسان کو چاہئے کہ وہ لوگوں سے محبت سے پیش آئے تو اس کے ناممکن کام بھی ممکن ہوسکتے ہیں-اقبال نے دوسرے مصرعے میں کہا کہ زندگی ایک جہاد ہے جس میں مردوں کی شمشیریں یہ تین اوزار ہیں – زندگی میں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو زندگی کے چیلنج کو قبول کرتے ہیں اور ایسے کارنامے انجام دیتے ہیں کہ رہتی دنیا تک ان کا نام باقی رہ جاتا ہے- اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہماری نوجوان اقبال کے اس شعر سے روشنی حاصل کریں اور جہد مسلسل کے ساتھ کام کرتے ہوئے اپنی زندگی کے مقاصد کی تکمیل کریں-

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔